چلا ہم کو سیدھے راستہ پر

   

چلا ہم کو سیدھے راستہ پر۔ (سورۃ الفاتحہ ۔۵) 
لغت میں ہدایت کا معنی ہے لطف وعنایت سے کسی کو منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی کے بیان کے بعد، اس کے مسلسل انعامات کے اعتراف کے بعد، اپنی عبودیت اور ناتوانی کا اعلان کرنے کے بعد انسان اب اپنے رحمن ورحیم رب کے حضور میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلا کر گویا عرض کرتا ہے ۔ ’’میں کمزور ہوں‘‘نفس کی فریب کاریاں اور شیطان کی وسوسہ اندازیاں بہت شدید ہیں۔ تو خود میری دستگیری فرما ،اپنے لطف وکرم سے مجھے سیدھے راستہ پر ثابت قدمی سے چلتے رہنے کی توفیق بخش اور اپنی رضا کی منزل تک پہنچا۔ قرب ووصال الٰہی کے اس مقام پر پہنچ کر مومن تنہا اپنی ذات کے لئے ہدایت طلب نہیں کرتا بلکہ ساری اُمت محمدیہ کیلئے ہدایت کا طلب گار ہے۔ کہتا ہے اھدنا ہم سب کو ہدایت دے ۔ کیونکہ اگر ہدایت اسلام چند افراد تک محدود رہے گی تو اس کی عالمگیر برکات وفیوض کا اظہار کیونکر ہوگا۔ شرق وغرب میں انسان جن میں گمراہیوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہے ان سے کیونکر چھٹکارا پاسکے گا اور كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِکی تعبیر کیسے ہو گی۔ ہدایت کے بےشمار مدارج ہیں۔ ایک سے ایک بلند ۔ ایک سے ایک اعلیٰ۔ مومن جب یہ دعا مانگتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے اس کے موجودہ مقام قرب وہدایت سے ارفع اور اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا جاوے۔ یا شیطان کی وسوسہ اندازی اور نفس کی کمزوری کے باعث قدم کے پھسل جانے کا جو ہر لحظہ خطرہ ہے اس سے اسے محفوظ رکھا جائے۔ اور اسے اس راہ پر ثبات نصیب ہو۔ اور وہ دام واپسیں تک شیطان کے ہر دام فریب کو تار تار کرتا ہوا راہ ہدایت پر بڑھتا چلا جائے۔(مظہری)