ممتا بنرجی … وقف قانون کے خلاف جرأت مندانہ اقدام
سپریم کورٹ پر نظریں … انصاف کی اُمید
رشیدالدین
ممتا بنرجی نے پھر ایک بار بازی مار لی۔ ملک میں جب کبھی مسلمانوں اور کمزور طبقات کو کچلنے اور اُنھیں دستوری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی، سب سے پہلے مغربی بنگال سے آواز اُٹھی۔ خاتون آہن ممتا بنرجی نے ہمیشہ مظلوم اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی، چاہے اُس کے لئے مرکزی حکومت سے ٹکرانا کیوں نہ پڑے۔ بابری مسجد کی شہادت سے آج تک جب کبھی مسلمانوں پر بُرا وقت آیا، ممتا بنرجی ساتھ کھڑی دکھائی دیں۔ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن اُن کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی۔ سیکولر نظریات اور دستور کے تحفظ کے معاملہ میں ممتا بنرجی کا موقف ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے اور کوئی دباؤ اُن کے موقف کو متزلزل نہ کرسکا۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں قدم جمانے کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن بنگال کی شیرنی نے ہر سازش کو ناکام کردیا۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں فرقہ پرستوں پر لگام کسنے والی واحد لیڈر ممتا بنرجی ہیں اور مرد لیڈرس کے مقابلہ اُن کا جذبۂ بے باکی قابل ستائش ہے۔ بی جے پی کیلئے ملک میں سب سے بڑا خطرہ ممتا بنرجی کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ جب کبھی مرکز میں مسلمانوں کے خلاف اور سیکولرازم کو کمزور کرنے کا کوئی قدم اُٹھایا گیا تو سب سے پہلے بنگال سے مخالف آواز گونجتی ہے۔ یہ خاتونِ آہن بی جے پی کے ایوانوں میں ہلچل اور فرقہ پرستوں کی نیند اُڑانے کے لئے کافی ہے۔ وقف ترمیمی قانون پر ملک کے لئے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے اعلان کیاکہ متنازعہ قانون پر مغربی بنگال میں عمل نہیں کیا جائے گا۔ یوں تو ملک میں کانگریس اور غیر بی جے پی زیراقتدار حکومتیں موجود ہیں، ہر کسی کو اقلیتوں سے ہمدردی اور سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان کا دعویٰ ہے لیکن کسی نے ابھی تک ایسا اعلان نہیں کیا۔ پارلیمنٹ میں منظورہ بل پر صدرجمہوریہ کی مہر ثبت ہونے کے اندرون 24 گھنٹے ممتا بنرجی نے متنازعہ وقف قانون کو مسترد کردیا اور سیکولرازم کے دعویداروں کو روشنی دکھائی۔ ہوسکتا ہے کہ کانگریس زیرقیادت ریاستوں تلنگانہ، کرناٹک اور ہماچل پردیش میں بھی یہی فیصلہ کیا جائے گا۔ کیرالا اور ٹاملناڈو کی حکومتوں سے بھی اِسی طرح کے اعلان کی اُمید ہے۔ ممتا بنرجی نے بابری مسجد کی شہادت کے خلاف بھی آواز اُٹھائی تھی۔ نریندر مودی کے 10 سالہ دور حکومت میں طلاق ثلاثہ پر پابندی، دفعہ 370 کی برخاستگی، این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے مسئلہ پر بھی ممتا بنرجی نے مسلمانوں اور سیول سوسائٹی کا ساتھ دیا۔ اُنھوں نے این آر سی اور سی اے اے پر بنگال میں عمل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خاتون ہونے کے باوجود ممتا بنرجی نے کبھی بھی نتائج کی پرواہ نہیں کی جبکہ مرد اپوزیشن قائدین مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔ وقف ترمیمی قانون جیسے متنازعہ اور حساس معاملہ میں ممتا بنرجی نے مسلمانوں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ صرف جدوجہد کے ذریعہ ہی حقوق کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی طرح انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کو توڑنے کی کوشش کی لیکن بنگال کے عوام نے اپنی ’’دیدی‘‘ کا ساتھ دیا۔ افسوس تو اُن مصلحت پسند پارٹیوں اور قائدین پر ہے جو مودی ۔ شاہ کے دباؤ میں آگئے اور مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھتے ہوئے وقف قانون کی منظوری میں اہم رول ادا کیا۔ چندرابابو نائیڈو، نتیش کمار، چراغ پاسوان اور جینت چودھری کے نام تاریخ میں ہمیشہ ابن الوقت قائدین کے طور پر درج کئے جائیں گے جنھوں نے مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار اور نشستیں حاصل کیں لیکن جب امتحان کی گھڑی آئی تو مسلمانوں سے منہ موڑ لیا اور زعفرانی رنگ اختیار کرلیا۔ وقف قانون کی تائید کے ذریعہ نائیڈو اور نتیش کمار نے دراصل اقدام خودکشی کیا ہے۔ دونوں ریاستوں میں آئندہ اُن کا اقتدار سے بیدخل ہونا تقریباً طے ہوچکا ہے۔ بی جے پی نے علاقائی پارٹیوں کو کمزور کرنے کا جو بیڑا اُٹھایا ہے، بابو، نتیش، چراغ اور چودھری سازش کا شکار ہوگئے۔ بہار میں نتیش کمار سے مسلمانوں کو دور کرتے ہوئے بی جے پی اسمبلی چناؤ میں واحد بڑی پارٹی کے طور پر اُبھرنے کی تیاری کررہی ہے تاکہ چیف منسٹر کی کرسی پر قبضہ کرسکے۔ آندھراپردیش میں بی جے پی سے اتحاد کے باوجود مسلمانوں نے چندرابابو نائیڈو اور پون کلیان کا ساتھ دیا اور اقتدار عطا کیا۔ مسلمانوں کو اُمید تھی کہ چندرابابو نائیڈو رنگ بدلنے کی عادت ترک کردیں گے لیکن نائیڈو نے موقع پرستی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے اعتماد اور بھروسہ کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ کانگریس اور غیر بی جے پی ریاستوں کو ممتا بنرجی کی تقلید کرتے ہوئے مودی حکومت کو یہ پیام دینا چاہئے کہ سیکولرازم اور دستور کے پاسبان ابھی زندہ ہیں۔ پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی پیشکشی کے موقع پر چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار کی جانب سے بعض ترمیمات پیش کی گئیں۔ مودی حکومت نے ترمیمات کو بل میں شامل کرنے کا بھروسہ دلایا جس کے بعد پارلیمنٹ میں امیت شاہ نے تقریر میں واضح کیا تھا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کو شامل نہیں کیا جائے گا لیکن جب صدرجمہوریہ دروپدی مرمو نے بل کو قانون کی شکل دی تو اُس وقت اوریجنل بل پیش کردیا گیا اور حلیف جماعتوں کی کوئی بھی ترمیم شامل نہیں کی گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار بی جے پی کی اِس دھوکہ دہی پر کیا ردعمل ظاہر کریں گے۔
وقف ترمیمی قانون کا مقصد مذہب کی بنیاد پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ہندوؤں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان سرکاری املاک پر قابض ہیں جس پر اکثریتی طبقہ کی حصہ داری ہونی چاہئے۔ وقف جائیدادوں پر ناجائز قابضین کو باقاعدہ بنانے کے مقصد سے یہ قانون تیار کیا گیا اور قابضین میں اڈانی اور امبانی جیسے صنعتکاروں کے علاوہ اکثریت غیر مسلم افراد کی ہے۔ پارلیمنٹ میں وقف بل کی منظوری کے اندرون 24 گھنٹے آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے عیسائیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک مضمون لکھا۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ ملک میں وقف سے زیادہ عیسائی کیتھولک اداروں کے تحت اراضیات ہیں جنھیں حکومت کو حاصل کرنا چاہئے۔ آر ایس ایس نے مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو نشانہ بنانے کا اپنا ایجنڈہ واضح کردیا لیکن جیسے ہی اپوزیشن نے آرگنائزر کے مضمون پر تنقید کی، دوسرے ہی لمحہ ویب سائٹ سے مضمون کو ہٹادیا گیا۔ مضمون کے ویب سائٹ سے نکل جانے سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کا نظریہ اور منصوبہ تبدیل نہیں ہوگا۔ مذہب کے نام پر نفرت کی یہ سیاست رام نومی تقاریب کے موقع پر دیکھی گئی جب اترپردیش کے کئی مقامات پر جارحانہ فرقہ پرست عناصر نے مساجد پر زعفرانی پرچم لہرادیئے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی تہوار مسلمانوں اور اُن کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنائے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ دراصل ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ دہلی میں واقع سی آر پارک علاقہ میں نفرت کے سوداگروں نے بنگالی مارکٹ کو بند کرنے کی دھمکی دی جہاں برسوں سے مچھلی فروخت کی جاتی ہے۔ زعفرانی شرپسندوں نے ’’میٹ مچھلی‘‘ بند کرو کا نعرہ لگاتے ہوئے بنگالی تاجروں کو دھمکایا کہ وہ مندر سے متصل اپنی دوکانات کو فوری بند کردیں۔ عام طور پر بیف کے نام پر تنازعہ کھڑا کیا جاتا رہا لیکن اب فش بھی نشانہ پر ہے۔ دراصل فرقہ پرست عناصر کو تنازعہ کھڑا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔ اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان میں 85 فیصد افراد نان ویجیٹرین ہیں۔ آسام میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور بار بار مسلمانوں کو مختلف عنوانات سے نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں کی تاریخی ’’کامکھیا دیوی‘‘ مندر میں آج بھی جانوروں کی بلی کی جاتی ہے۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلم تنظیموں اور سیول سوسائٹی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ سپریم کورٹ نے 16 اپریل کو سماعت کا فیصلہ کیا۔ اُمید کی جارہی ہے کہ مخالف دستور وقف ترمیمی قانون کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے گا کیوں کہ دستور کے تحفظ کی ذمہ داری عدالت العالیہ پر ہے۔ ویسے بھی گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی حکومت کے کئی ایسے غیر دستوری فیصلے رہے جنھیں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن درخواست گذاروں کو کوئی راحت نہیں ملی۔ طلاق ثلاثہ، دفعہ 370، سی اے اے جیسے معاملات برسوں سے عدالت میں زیردوران ہیں۔ اتنا ہی نہیں بابری مسجد کی شہادت کے بعد دیگر مذہبی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے جو قانون تیار کیا گیا تھا اُس کے نفاذ کی درخواستیں بھی سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہیں۔ عدلیہ کا اُصول ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے محروم کرنا ہے۔ اب جبکہ ملک بھر میں مسلمان اور سیول سوسائٹی نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف آواز بلند کی ہے، ایسے میں سپریم کورٹ سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر درخواستوں کی سماعت اور یکسوئی کرے گا۔ سپریم کورٹ پر انحصار اپنی جگہ لیکن جب تک مسلمان اتحاد کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتے اُس وقت تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا۔ کسانوں اور ٹاملناڈو کے جیالے عوام کی مثال ہمارے سامنے ہے جنھوں نے کسانوں کے سیاہ قوانین اور ٹامل روایت ’جلی کٹو‘ کی برقراری کیلئے مرکز کو مجبور کردیا تھا۔ ندیم فرخ نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ رہنما تو جگانے سے بھی نہیں جاگے
چلو عوام کو بیدار کرکے دیکھتے ہیں