چیف منسٹر منی پور کا استعفیٰ

   

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
منی پور کے چیف منسٹر بیرین سنگھ نے بالآخر استعفی دیدیا ہے ۔ منی پور میں گذشتہ دو سال سے لگاتار تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور دو سال تک انہوں نے جانی و مالی نقصانات کے باوجود اپنی کرسی کو پکڑے رکھا تھا اور خود مرکزی بی جے پی قیادت بھی بیرین سنگھ کی برقراری کے حق میں رہی تھی اور اس نے منی پور میں چل رہے تشدد اور جانی و مالی نقصانات پر کسی طرح کی کارروائی نہیں کی ۔ صرف نیم فوجی دس توں کی تعیناتی کے ذریعہ حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔خود چیف منسٹر کے گھر پر حملے ہوئے تھے ۔ دوسرے ارکان اسمبلی اور و زراء کے گھروں کو بھی ہجوم نے نشانہ بنایا تھا ۔ بے شمار افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں اور جائیداد و املاک کا بھی بھاری نقصان ہوا ہے ۔ ساری صورتحال کے باوجود بیرین سنگھ اپنی کرسی چمٹے رہے تھے اور بی جے پی کی قیادت نے بھی انہیں کرسی چھوڑنے کو نہیں کہا تھا ۔ اب اچانک ہی بیرین سنگھ کو دہلی طلب کرتے ہوئے استعفی دینے کی ہدایت دی گئی اور انہوں نے دہلی سے امپھال واپسی کے ساتھ ہی گورنر سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی پیش کردیا ۔ حالانکہ بی جے پی یا بیرین سنگھ کی جانب سے کوئی واضح وجوہات استعفی کی نہیں بتائی گئی ہیں لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بیرین سنگھ کو بی جے پی نے اپنی قومی سطح پر ساکھ بچانے اور منفی پروپگنڈے سے بچنے کیلئے استعفی کی ہدایت دی ہے ۔ر یاست کی صورتحال اور وہاں جاری نقصانات کی پرواہ کئے بغیر انہیں برقرار رکھا گیا تھا لیکن سیاسی نقصان سے بچنے کیلئے انہیں کرسی چھوڑنے کیلئے کہہ دیا گیا ۔ بیرین سنگھ کو ریاست میں بی جے پی کے ہی ارکان اسمبلی کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ کئی ارکان اسمبلی ان کی تبدیلی کے حق میں تھے ۔ اس سلسلہ میں ان ارکان اسمبلی نے دہلی پہونچ کر مرکزی قائدین اور خود وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی ملاقات کی تھی اور اپنے مطالبات سے انہیں واقف کروایا تھا ۔ ارکان اسمبلی کے اصرار کے باوجود بی جے پی کی اعلی اور مرکزی قیادت نے اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ہوئی تھی ۔ تاہم سیاسی نقصان کے اندیشوں کے تحت انہیں عہدہ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
منی پور اسمبلی میںآج پیر کو ہی کانگریس کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ آج ہی ایوان میں یہ تحریک پیش ہونے والی تھی اور بی جے پی کو اندیشے لاحق تھے کہ کچھ بی جے پی کے ارکان اسمبلی اور وزراء بھی تحریک عدم اعتماد پر حکومت کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کریں گے اور وہ ایوان سے ہی غیر حاضر رہیں گے ۔ ایسے میں کانگریس کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات دکھائی دے رہے تھے ۔ اسی صورتحال کو بی جے پی نے محسوس کرلیا اور قومی سطح پر جاری اپنے تشہیری ہتھکنڈوں کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے بیرین سنگھ کو استعفی کی ہدایت دی گئی ۔ فی الحال چیف منسٹر کو ہی اپنی کرسی چھوڑنی پڑی ہے اور کسی دوسرے کو یہ ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے ۔ تاہم اگر کانگریس پارٹی کی جانب سے ایوان میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی جاتی اور یہ بی جے پی کے کچھ ارکان کی غیر حاضری کے باعث منظور ہوجاتی تو پھر بی جے پی کی حکومت ہی زوال کا شکار ہوجاتی ۔ ایسے میں بی جے پی قومی سطح پر اپنے حق میں جو مثبت ماحول اور فضاء بنانے کی مہم چلا رہی ہے اور ہریانہ ‘ مہاراشٹرا اور دہلی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جا ری ہے اس کی نفی ہوجاتی اور بی جے پی کے تعلق سے منفی تبصرے شروع ہوجاتے ۔ منی پور کے حساس مسئلے پر سارے ملک میں پارٹی کو منفی تبصروں اور ریمارکس کا سامنا کرنا پڑتا ۔ پارٹی پر تنقیدیں ہوتیں اور اسے سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ۔
اسی صورتحال کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے بی جے پی اعلی قیادت نے بیرین سنگھ کو عہدہ سے ہٹانے کا فیصلہ کردیا اور ریاست میں اپنی حکومت کو بچانے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی کے اس فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی کو ملک کی ایک اہم ریاست کے نظم و قانون اور وہاں کے عوام کی جان و مال کے تحفظ سے زیادہ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اسے فکر صرف اپنے سیاسی فائدے اور نقصان کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منی پور دو سال سے جل رہا ہے لیکن چیف منسٹر کو علیحدہ نہیں کیا گیا اور جب پارٹی کو سیاسی نقصان کے اندیشوں نے گھیرا تو پھر چیف منسٹر کو تبدیل کردیا گیا ۔ یہ بی جے پی کی سیاسی مفاد پرستی کا کھلا ثبوت ہے ۔