ڈریس کوڈ معاملے میں صدمہ کا مدراس ہائی کورٹ نے کیا اظہار’قوم یامذہب اہم ہے‘۔

,

   

چینائی۔ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے ڈریس کوڈ تنازعہ پر جمعرات کے روز مدارس ہائی کورٹ نے تشویش کااظہار کیاہے۔ کارگذار چیف جسٹس منیشوار ناتھ بھانڈاری کی نگرانی والی ایک بنچ نے پوچھا کیا”کیااہم ہے؟ ملک ہے یا مذہب؟‘۔میرا مطلب یہ مکمل طور پر صدمہ ہے۔

کوئی حجاب کے لئے جارہاہے‘ کوئی ٹوپی کے لئے جارہا ہے او رکوئی کسی او رچیز کے ئے جارہا ہے“۔ان تمام چیزوں کے پیچھے کی منشاء پر سوال کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ”یہ ایک ملک ہے کہ مذہب یا اسی طرح کی کسی او رچیز سے منقسم ہے۔

یہ چوکنا دینے والا عمل ہے“۔اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے‘ انہو ں نے کہاکہ ”جو کچھ موجودہ امورمیں سامنے آرہا ہے وہ اس سے کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی یہ ایک کوشش ہے“۔

مذکورہ کار گذار چیف جسٹس کا یہ مشاہدہ ایسے وقت سامنے آیا جب ایک بنچ پر سری رانگم نژاد جہد کار رنگارجن نرسمہن کی جانب سے درخواستیں دائر کرتے ہوئے عدالت سے مانگ کی گئی ہے کہ تاملناڈو بھر میں سخت ڈریس کوڈ بھگتوں کے لئے نافذ کیاجائے اور غیر ہندؤوں کو منادر میں قدم رکھنے نہ دیاجائے۔

بنچ نے درخواست گذار سے استفسار کیاکہ ڈریس کوڈ پر عمل ہونے والے ایک روایت کی مثال پیش کریں تاکہ مناد ر میں انفرادی طور پر روایت کی وضاحت ہوسکے۔

جب درخواست گذار نے احکامات کی مانگ کی تو بنچ نے اس سے پوچھا کہ پینٹس اور شرٹس کی مثال ”اگاماس“ کے حصہ کے طور پر دی گئی ہے پیش کریں۔

بنچ نے انہیں اس بات کا بھی انتباہ دیا کہ عدالت میں انہیں ذاتی طور پر حاضر ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور انہیں مناسب الفاظ کے استعمال کرنے اورجھگڑے سے دور رہنے کی ہدایت دی ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل آر شانموگوسندرم نے عدالت کو بتایاکہ ہر ایک مندر اپنے ذاتی روایت پر عمل کرتا ہے اور دوسرے مذہب سے وہاں پر آنے والوں کے لئے ”اکوڑی مارم“ جھنڈے کے مقام تک ہی رسائی دی جاتی ہے۔

آخر کار بنچ نے درخواست گذار کو مندروں میں ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر عکاسی کے ساتھ حلف نامہ داخل کرنے کی اجازت دی ہے۔