شکوہ رُک جاتا ہے کیوں آکر لبوں پر ہر گھڑی
اب وہی درد و الم سوزِ نہاں ہوتا گیا
ڈونالڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعدسے ایک طرح سے دنیا بھر میںاتھل پتھل شروع کروادی ہے ۔ جہاں انہوں نے کنیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست قرار دینے کی بات کی تو وہیں انہوں نے گرین لینڈ پر کو حاصل کرلینے کی بات کی ۔ انہوں نے مصر ‘ اردن اور کچھ دوسرے عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کو اپنے ملک میں جگہ دیں۔ پھر اچانک ہی انہوں نے اپنے اس ارادہ کا بھی اعلان کردیا کہ وہ غزہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ در اصل ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تیاری کی شروعات ہے ۔ اسی منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو خود ان کے ہی وطن اور ان کی ہی زمین سے بیدخل کرنے کی بات ہے جس کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ایک طرح سے گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو ایک دوسرے کی تائید و حمایت کیلئے پہلے سے زیادہ کمربستہ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کیلئے بھی یہودی لابی نے کافی تگ و دو اور جدوجہد کی تھی ۔ اسرائیل ابتداء ہی سے یہ منصوبہ رکھتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بیدخل کردیا جائے ۔ وہ ایک گریٹر اسرائیل کے قیام کا خواہاں ہے اور اپنے منصوبوں پر یکے بعد دیگرے عمل بھی کرتا چلا جا رہا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے جس طرح سے غزہ میںنسل کشی کی گئی ہے اس کو روکنے کی بجائے امریکہ نے اس کی مدافعت کی اور اس نسل کشی میںاسرائیل کی مدد بھی کی ۔ اس طرح اسرائیل کے منصوبوں میںامریکہ بھی برابر کا شریک ہے اور وہ اسرائیلی ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے اپنے طور پر اقدامات کر رہا ہے ۔ غزہ کو حاصل کرلینے ٹرمپ کا منصوبہ یا ارادہ بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایک خفیہ منصوبے کو حتمی شکل دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اس منصوبے کے تعلق سے چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین اور ان کے اپنے وطن سے بیدخل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ منصوبہ ناقابل قبول ہے ۔
جہاں تک اسرائیل کی بات ہے تو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی گنجائش بھی بمشکل تمام اسی صورت میں نکالی گئی تھی کہ ریاست فلسطین کا قیام عمل میںلایا جائیگا ۔ تاہم اس منصوبہ کو اسرائیل اور امریکہ نے ایک عارضی انتظام کے طور پر استعمال کیا اور اپنے منصوبوںکو عملی شکل دینے کے بعد اب حقیقی منصوبے کی سمت پیشرفت کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک بیت المقدس کا سوال ہے تو یہ کسی کی ملکیت نہیں ہے ۔ اس پر تین مذاہب کے دعوے ہیں اور اس کی نگرانی یا تولیت بھی کسی ملک کی ذمہ داری یا اجارہ داری نہیں ہے ۔ کسی ملک کے عوام کو ان کی اپنی سرزمین سے بیدخل کرکے دوسرے ملکوں میں پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے کیلئے کہنا انسانی اور بنیادی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہوگی ۔ امریکہ خطہ کے عرب ممالک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے کہ ارض فلسطین سے فلسطینیوں کو بیدخل کرکے ان عرب ممالک میں پناہ دی جائے ۔ خود امریکہ ان فلسطینیوں کو اپنے ملک میںجگہ دینے تیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی یوروپی یا مغربی ملک سے خواہش کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو اپنے وطن میں جگہ دیں۔ وہ سیدھے انداز میںفلسطین کے وجود کو ہی دنیا کے نقشہ سے مٹانے کے منصوبہ پر عمل کرنا چاہتا ہے اور اس منصوبہ کا واحد مقصد گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے اور یہی کچھ نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عرب اور اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے انصاف پسند ممالک کو اس صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ ہوں یا پھر کوئی اور ہوں کسی کو بھی فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بیدخل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اورنہ ہی کسی کو اختیار ہے کہ فلسطین کے وجود کو ختم کرنے کے عزائم پر عمل کریں۔ فلسطینی ریاست کا قیام اور فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی موجود ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل اس سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عزائم نہ صرف فلسطینیوں کیلئے بلکہ کسی کیلئے بھی اچھے نہیں ہیںاور ان کے نتیجہ میں دنیا بھر میں بے چینی اور نراج کی کیفیت پیدا ہوگی اور اتھل پتھل کے ان منصوبوںکو برخواست کرنے کی ضرورت ہے ۔ فلسطینیوں کو ان کے جائز حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔