ڈونالڈ ٹرمپ کا چین پر نشانہ

   

Ferty9 Clinic

تیری ہمدردی سلامت دل کی بے تابی بخیر
موج غم کو بڑھ کے سیل بیکراں ہونا ہی تھا
ڈونالڈ ٹرمپ کا چین پر نشانہ
جس وقت سے ساری دنیا میں کورونا وائرس نے قہر مچانا شروع کیا ہے اس وقت سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک طرح سے چین کو نشانہ بنانے کے مواقع کا انتظار کررہے تھے ۔ وہ مسلسل اس بات پر زور دے رہے تھے کہ چین سے یہ وائرس پھیلا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ وائرس چین نے عمدا پھیلایا ہو۔ ایک موقع پر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو چینی وائرس بھی قرار دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین سفارتی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی ۔ ٹرمپ نے چینی وائرس ریمارک کی مدافعت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے ریمارک پر اٹل ہیں۔ اب ایک بار پھر ڈونالڈ ٹرمپ چین کو نشانہ بنانے پر اتر آئے ہیں۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا میں تباہی مچار کھی ہے ۔ اس وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اب تک 1,60,000 افراد فوت ہوچکے ہیں اور 23 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ اس وائرس نے سب سے زیادہ تباہی اب تک امریکہ میں مچائی ہے ۔ یہاں 37 ہزار افراد موت کے گھاٹ اترچکے ہیں اور سات لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو چین کا یہ دعوی ہے کہ اس نے کورونا وائرس پر قابو پالیا ہے اور اس وائرس کے اصل مرکز ووہان میں معاشی سرگرمیاں بتدریج بحال کی جا رہی ہیںاور وہاں عام زندگی بھی معمول پر آتی جا رہی ہے ۔ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے اموات کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ بہت کم ہے ۔ سرکاری تعداد غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔ ٹرمپ کا ادعا ہے کہ کورونا اموات کے معاملہ میں چین ‘ امریکہ سے بہت آگے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں اموات کی تعداد میں کوئی مماثلت نہیں ہے بلکہ چین بہت زیادہ آگے ہے ۔ جو تعداد حکومت ظاہر کر رہی ہے وہ بہت کم ہے ۔ ٹرمپ کا انتباہ یہ بھی تھا کہ اگر یہ واضح ہوجائے کہ چین نے عمدا یہ وائرس پھیلایا ہوا تھا تو پھر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا ۔ اس طرح ٹرمپ نے اپنی ساری بھڑاس چین پر نکالی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ امریکی صدارتی انتخابات میں بھی چین کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپنی مہم کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں جس طرح سے چین کو حاشیہ پر لا کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے اس سے کئی اشارے ملتے ہیں۔ اب امریکہ کے ساتھ چین کے علاوہ شائد کوئی اور مسئلہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جس کو بنیاد بناتے ہوئے وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرسکے ۔ امریکہ میں معاشی سرگرمیوںکو پوری طرح روک دئے جانے کے بعد سے ٹرمپ مسلسل بے چین ہیںاور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں بتدریج معاشی سرگرمیوں کو بحال کیا جائے ۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں ان سرگرمیوں کو بحال کرنے اور لاک ڈاون میں نرمی کیلئے احتجاجی مظاہرے بھی ہونے لگے ہیں۔ یہ مظاہرے ٹرمپ کے حامی کر رہے ہیں لیکن اس تجویز پر انہیں شدید مخالفت کا سامنا بھی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اس معاملہ میں پس و پیش کا شکار ہوگئے ہیں اور ان کیلئے کسی ایک موقف کا اختیار کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسے میں وہ امریکی عوام میں اپنی ساکھ کو بچانے کی زیادہ فکر کرنے لگے ہیں اور اس کیلئے انہیں اب چین ایک آسان نشانہ محسوس ہونے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی ابتداء میں تائید کرنے والی عالمی تنظیم صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کو بھی ٹرمپ نے نشانہ بنایا تھا اور اس ادارہ کیلئے امرکہ سے جو فنڈنگ ہوتی تھی اسے بھی انہوں نے روک دیا ہے ۔ ٹرمپ نے یہ ریمارک بھی کیا کہ اگر جو بیڈن امریکی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو امریکی معیشت پر چین کا قبضہ بھی ہوجائیگا ۔ اس طرح وہ موجودہ صورتحال میں بھی سیاست سے باز نہیں آ رہے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ اگر اپنے داخلی سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے کوئی بڑا فیصلہ چین کے تعلق سے کرلیتے ہیں تو یہ صرف چین تک محدود نہیں ہوسکتا ۔ اس کے سارے جنوبی ایشیا ء پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ساری دنیا کورونا وائرس سے متاثر ہے اور جنوبی ایشیائی خطہ بھی پریشان ہے اور یہاں کی معیشت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر چین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ شدت اختیار کرتی ہے اور کوئی ٹکراو کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف چین اور امریکہ بلکہ ساری دنیا کی معیشت بھی متاثر ہوسکتی ہے اور خاص طور پر جنوبی ایشائی خطہ کی حالت قابل رحم ہوجائیگی ۔ دنیا کے ذمہ دار ممالک کو موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کشیدگی کو کم کرنے ذمہ دارانہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔