ڈونالڈ ٹرمپ کے دوہرے معیارات

   

صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان اور چین کے خلاف تجارتی شرحیں عائد کرنے اور پھر بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کے معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان کے تعلق سے ان کا رویہ ڈوغلے پن اور دوہرے معیارات کو ہی ظاہر کرتا ہے ۔ ایک طرف ٹرمپ نے ہندوستان کے خلاف روس سے تیل کی خریداری کے مسئلہ پر 50 فیصد تک شرحیں عائد کردی ہیں اور پھر وہ بات چیت کی ضرورت پر بھی زور دے رہے ہیں ۔ شرحیں عائد کرنے کے بعد ہندوستان کے تعلق سے ان کے لب و لہجہ میں نرمی پیدا ہوئی ہے اور وہ ہندوستان سے دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم ہندوستان نریندر مودی سے اپنی دوستی کے تذکرہ بھی کرنے لگے ہیں اور وزیر اعظم مودی بھی ٹرمپ کے تبصروں پر اپنے مثبت رد عمل کا ہی اظہار کر رہے ہیں۔ ایک طرف شرحوں کا نفاذ اور دوسری طرف دوستی کی باتیں دوہرے معیارات ہی کو ظاہر کرتی ہیں۔ جہاں امریکہ ہندوستان کے خلاف روس سے تیل کی خریداری پر پچاس فیصد تک شرحیں عائد کرچکا ہے وہیں اب یوروپی ممالک پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ہندوستان پر صد فیصد تحدیدات عائد کردیں تاکہ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کو روکا جاسکے ۔ امریکہ کا یہ اصرار ہے کہ ہندوستان اور چین روس سے جو تیل خرید رہے ہیں اس سے حاصل ہونے والے رقومات کو روس یوکرین کے خلاف جنگ کیلئے خرچ کر رہا ہے ۔ یوروپی ممالک پر اس تاثر کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ روس کے ساتھ ہندوستان اور چین کی تجارت کے نتیجہ ہی میں روس کو یوکرین کے خلاف جنگ کیلئے درکار وسائل دستیاب ہو رہے ہیں اور اگر یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو روکنا ہے تو پھر ہندوستان اور چین کو روس سے تیل خریدنے سے روکنا پڑے گا ۔ روس ۔ یوکرین جنگ روکنے کے معاملے میں بھی ٹرمپ تقریبا ناکام ہوگئے ہیں۔ انہوں نے چند گھنٹوں میں چند روکنے کی امید ظاہر کی تھی لیکن وہ اب تک ناکام رہے ہیں اور وہ ایسے راستے اختیار کر رہے ہیںجن سے امریکہ کے تعلقات دیگر ممالک سے بھی بگڑ رہے ہیں۔
جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بہت گہرے اور مستحکم ہوگئے تھے ۔ دونوںممالک کے مابین حکمت عملی شراکت بھی مستحکم ہوگئی تھی ۔ تجارت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا ۔ کئی عالمی امور میں دونوںممالک ایک رائے دکھائی دے رہے تھے ۔ تاہم اچانک ہی ڈونالڈ ٹرمپ کے رویہ اور لب و لہجہ میں تبدیلی پیدا ہوگئی اور انہوں نے ہندوستان مخالف تبصرے شروع کردئے ۔ چاہے وہ پاکستان کے ساتھ تصادم میں جنگ بندی کی بات ہو یا پھر کچھ دوسرے امور ہو ۔ لگاتار ٹرمپ کی جانب سے ایسے بیانات دئے جانے لگے جن سے ہندوستان نے اتفاق نہیں کیا ۔ روس سے تیل کی خریدی کے مسئلہ پر ٹرمپ نے ہندوستان پر ممکنہ حد تک دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور جب یہ دباؤ ناکام ہوگیا تو ٹرمپ نے شرحیں عائد کرنے کا راستہ اختیار کیا ۔ 25 فیصد شرحیں عائد کی گئیں اور ان پر مزید 25 فیصد جرمانے عائد کردئے ۔ بات یہیں پر نہیں تھمی اور اب ڈونالڈ ٹرمپ یوروپی ممالک پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ہندوستان کے خلاف صد فیصد شرحیں عائد کرنے کے تعلق سے اقدامات کریں۔ امریکہ بھی یوروپی ممالک کے ساتھ شرحوں میں اضافہ کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ اس طرح کے مخالف ہند اقدامات کے دوران ٹرمپ ہندوستان اور وزیر اعظم مودی کے ساتھ دوستی اور دیرینہ تعلقات کا تذکرہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ ان کے کھلے دوہرے معیارات ہیں اور ان سے ہندوستان کو ہوشیار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔
حالیہ عرصہ میں جس طرح سے ٹرمپ نے ہندوستان کے تعلق سے اپنے لب و لہجہ میں نرمی پیدا کی تھی اس کے بعد ہندوستان نے بھی بات چیت کے تعلق سے مثبت رویہ اختیار کیا تھا ۔ تاہم اب دوبارہ ٹرمپ کی جانب سے یوروپی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جا رہا ہے جس کے ذریعہ ہندوستان کو مشکلات کا شکار بنایا جاسکے ۔ اس تعلق سے ہندوستان کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ ٹرمپ کے لہجہ میں نرمی سے کسی طرح کے دھوکہ کا شکار نہ سکیں۔ ملک کے مفادات اور تجارت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بات چیت کی جاسکتی ہے ۔ تاہم کسی خوش فہمی کا شکار ہونے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔