ترکِ سفر کا پھر بھی ارادہ نہیں کیا
ہر حادثے سے آنکھ ملاتے چلے گئے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی الاسکا میں ملاقات ہوئی ۔ دونوں قائدین نے اس بات چیت کو انتہائی ثمر آور اور کامیاب قرار دیا ہے ۔ حالانکہ اس ملاقات اور بات چیت میں کسی طرح کی کوئی واضح پیشرفت دکھائی نہیں دی ہے اور نہ ہی روس ۔ یوکرین جنگ بندی کے تعلق سے کوئی قطعی معاہدہ طئے پایا ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ اس بات چیت میں روس۔ یوکرین جنگ بندی کیلئے ایک ٹھوس بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ روس نے بھی جنگ بندی اور ہلاکتوں کا سلسلہ روکنے سے اتفاق کرلیا ہے لیکن اس نے اپنی کچھ پریشانیوں اور تشویش کا تذکرہ کیا ہے اور اس کو ڈونالڈ ٹرمپ نے قبول بھی کرلیا ہے ۔ اسی لئے ٹرمپ نے بات چیت کے بعد کہا ہے کہ جنگ بندی کیلئے اب یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں یوروپی قائدین کو بھی اپنا کچھ رول ادا کرنا ہوگا ۔ یوروپی قائدین نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک یوکرین ۔ روس جنگ بند نہیں ہوگی اس وقت تک روس کے خلاف تحدیدات کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ خاص بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کوئی سمجھوتہ نہیں ہوپایا ہے اور تمام بات چیت کو روس۔ یوکرین جنگ روکنے سے ہی مربوط کیا گیا ہے ۔ ٹرمپ بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کیلئے اولین ترجیح ہلاکتوں کا سلسلہ روکنے کی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنے کیلئے یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے ۔ کچھ وقت پہلے تک ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر پوٹن جنگ بندی کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں تو پھر ان کے خلاف تحدیدات بھی عائد کی جاسکتی ہیں اور جو تحدیدات پہلے ہی سے موجود ہیں ان کو سخت کیا جاسکتا ہے ۔ یوروپی ممالک کا جہاں تک سوال ہے تو یہ بات بہت واضح ہوچکی ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکہ اور ڈونالڈ ٹرمپ روس پر دباؤ ڈالتے ہوئے جنگ بندی کو یقینی بنائیں۔ ٹرمپ نے بھی الاسکا ملاقات میں جنگ بندی کی خواہش کی تھی جو پوری نہیں ہو پا ئی ہے ۔ اب یوکرین کے صدر زیلنسکی 18 اگسٹ کو واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں اور اس موقع پر وہ صدر ٹرمپ سے دوبدو بات چیت کریں گے ۔ یہ ایک اچھی علامت کہی جا رہی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی اور جنگ روکی جانی چاہئے ۔ جس طرح سے ٹرمپ اس جنگ کو روکنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کچھ پیشرفت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے زیلنسکی بھی واشنگٹن کا دورہ کرنے تیار ہوگئے ہیں ۔ تاہم یہ بات بھی ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ٹرمپ کی لاکھ خواہش کے باوجود روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنے موقف پر اٹل ہیں۔ انہوں نے الاسکا اجلاس میں کوئی معاہدہ طئے نہیں کیا ہے اور ایک طرح سے اپنی کچھ شرائط پیش کی ہیں۔ عام تاثر یہی پایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اپنی لاکھ کوشش کے باوجود پوٹن کو فوری طور پر جنگ بندی کیلئے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ انہوں نے الاسکا ملاقات کے بعد جس طرح کا بیان جاری کیا ہے اس سے بھی یہ واضح ہوگیا ہے کہ ٹرمپ کی کوشش پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو پائی ہے اور پوٹن اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس جنگ کو ختم کرنے کیلئے روس کو تیار کرلیا جائے اور ٹرمپ کی اسی بے چینی کا روسی صدر پوٹن کی جانب سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔ زیلنسکی کا جہاں تک سوال ہے وہ بے چین ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے جنگ کو روکا جاسکے ۔ جنگ روکے جانے کی کوششوں میں وہ بھی حصہ لینے کو تیار ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کوشش کی تھی کہ الاسکا کی چوٹی ملاقات میں زیلنسکی کو بھی مدعو کیا جائے تاہم اس کیلئے پوٹن تیار نہیں ہوئے اور اسی وجہ سے اب زیلنسکی علیحدہ سے واشنگٹن پہونچ کر صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے ۔ اس ملاقات کے بعد صورتحال کچھ حد تک واضح ہوسکتی ہے ۔
روس اور یوکرین کے مابین جنگ صرف دونوں ملکوں تک محدود نہیں ہے۔ اس علاقہ کی صورتحال سے امریکی مفادات پر بھی وابستہ ہیں اور ٹرمپ ان ہی کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ روس کی اہمیت سے واقف ہوتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ یہی حال یوروپی ممالک کا بھی ہے ۔ یوروپی ممالک نے لگاتار روس کی مخالفت کی ہے اور وہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس کے خلاف یوروپی ممالک جنگ بندی کے اعلان تک تحدیدات برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس سے قبل وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کو تیار ہیں ہیں۔ اب جبکہ زیلنسکی واشنگٹن پہونچنے والے ہیں اور ٹرمپ نے یوروپی ممالک سے بھی رول ادا کرنے کی خواہش کی ہے تو آئندہ چند دنوں میں روس ۔ یوکرین جنگ بندی کی سمت کوشش ضرور ہوئی ہے ۔ یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ ابھی کہا نہیں جاسکات۔
ہند ۔ چین تعلقات میں بہتری کے آثار
ہندوستان اور چین کے تعلقات میں بہتری کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ گذشتہ دنوں وزیر خارجہ ہند ڈاکٹر ایس جئے شنکر نے چین کا دورہ کیا تھا اور اب چین کے وزیر خارجہ ہندوستان کا سہ روزہ دورہ کرنے والے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین کچھ معاملات پر اختلاف رائے ضرور پایا جاتا رہا ہے تاہم ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اب دونوں ممالک ان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے باہمی تعلقتا کو بہتر بنانے کی کوششوںکو سنجیدگی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ ایسے میں ہندوستان کو اپنی سرحدات کے مسئلہ کو بھی چین کے ساتھ رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔ چین سرحدات پر جس طرح کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ان کو ختم کرنے کیلئے بھی چین کے ساتھ موثر ڈھنگ سے سفارتی کوشش کی جانی چاہئے ۔