ڈی ایس بندرا نے شاہین باغ میں لنگر چلانے کے لئے فروخت کردیا اپنا فلیٹ

,

   

واہے گرو نے جو دیاہے اس کو خدمت خلق میں لگادینا ہی اس کا اصل استعمال‘ ابتداء میں گھر والے ناراض ہوئے مگر اب سبھی بندرا کے ساتھ شاہین باغ میں احتجاجیوں کی خدمت کررہے ہیں

نئی دہلی۔اوکھلا کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خواتین کے احتجاج کے سبب عالمی شہریت پاچکا ہے‘ ساتھ ہی یہاں شرپسندوں نے حالات کو بگاڑنے کے لئے گولی بھی چلایا۔

یہاں جاری پرامن مظاہرے کی شہریت علاقے کے عزت میں بھی چار چاند لگارہی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ یہاں جاری رہنے والے لنگر کے تعلق سے روشنی میں آیاہے جس میں سکھ قوم سے تعلق رکھنے والے ڈی ایس بندرا جو پیشہ سے وکیل ہیں نے احتجاجی خواتین کے لئے لنگر کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے اپناذاتی فلیٹ ہی فروخت کردیا۔

ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ اس بات سے ناراض ہوئے مگر بعد میں بھی ان کے ساتھ اگئے اورکاندھے سے کاندھا ملاکر خدمت خلق میں مصروف ہوگئے۔

اس بابت با ت کرتے ہوئے ڈی ایس بندرا نے بتایا کہ وہ ابتداء سے ہی سی اے اے کے خلاف ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے تفصیل سے باتیا کہ جب سی اے اے صرف سی اے بی تھا تب ان کے دوست ڈاکٹر رضوان کا ان کے پاس فون آیا او رانہوں نے اس سے متعلق تحریک میں شامل ہونے کے لئے کہا۔

انہوں نے کہاکہ میں نے اس سے کہاکہ میں کیوں اس کی مخالفت کروں تب انہوں نے مجھے اس قانون کے نقصانات او رائین کو درپیش خطرہ کے تعلق سے سمجھایااور پھر میں نے اس قانون کے خلاف جدوجہد کرنے کا ارادہ کرلیا۔

انہوں نے بتایاکہ وہ جامع مسجد میں اپنے دوستوں کیس اتھ نمازبھی ادا کرچکے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ایشور کی عبادت کرنے کے طریقے الگ ہوسکتے ہیں مگر وہ ہے تو ایک ہی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خوریجی اور مصطفی آباد میں لنگر کرکچے ہیں اور اس کے بعد شاہین باغ آگے اور ب سے یہیں مستقل طور پر کام کررہے ہیں۔

ائین بچانے کے لئے سڑک پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی اگر ہم کچھ خدمت کردیتے ہیں تو ہماری جانب سے یہ تعاون بھی ایک اہم خدمت ہوگی بندرا کے مطابق آج یہاں پنجابی سماج کے علاوہ دیگر طبقات سے وابستہ افراد بھی آرہے ہیں مگر لوگ اپنے دل سے مختلف سامان لارہے ہیں اورتعاون کررہے ہیں۔

ہم گھر سے چھ لوگ ہیں جو گرودوارہ جاتے ہیں اورسجدہ کرنے کے لئے پچاس پچاس روپئے کا عطیہ دیتے ہیں تو کیو نہ انسانیت کی خدمت کے لئے کچھ کاکام کریں اور اسی غرض سے ہم نے یہ قدم اٹھا یا ہے۔

فلیٹ اس لئے فروخت کرنا پڑا کیونکہ لنگر چلانے کے لئے پیسہ کی کمی آگئی تھی اور ایسے میں اپنی جائیداد سے زیادہ بہتر کسی شئے کا سہارا لینا ٹھیک نہیں تھا۔

انہو ں نے بتایا کہ میرے بیٹے کی موبائیل کی دوکان ہے او رایمنسٹی یونیورسٹی سے ایم بی اے کررہی ہے۔