دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
تلنگانہ میں کالیشورم پراجیکٹ کے بڑے چرچے رہے ہیں۔ سابق بی آر ایس دور حکومت میں اس پراجیکٹ کو حکومت کے ایک بڑے کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ اس پراجیکٹ کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی ۔ اس کے تعلق سے بلند بانگ دعوے کئے گئے ۔ اس کا سہرا سابقہ حکومت کے سر باندھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ تاہم کالیشورم پراجیکٹ تعمیر کے کچھ ہی وقت بعد مسائل کا شکار بھی ہوگیا تھا ۔ کسی بیاریج میں شگاف کی بھی اطلاعات عام ہوئی تھیں۔ جب ریاست میں اسمبلی انتخابات کے بعد کانگریس کی حکومت قائم ہوئی تو کالیشورم پراجیکٹ کی تعمیر میں بے قاعدگیوں کے الزامات بھی سامنے آنے لگے ۔ یہ دعوی کیا گیا کہ پراجیکٹ کی تعمیر میں بدعنوانیاں ہوئی ہیں اور تخمینہ سے زائد رقومات خرچ کی گئی تھیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ تعمیرات بھی معیاری انداز میں نہیں کی گئی تھیں اور اس کی وجہ سے پراجیکٹ میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کانگریس حکومت نے ساری صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پراجیکٹ کی تعمیر میں ہوئی بے قاعدگیوں اور مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کیلئے جسٹس پی سی گھوش کمیشن تشکیل دیا تھا ۔ کمیشن نے کافی وقت لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا کام پورا کیا ۔ مختلف امور کا تحقیقات میں احاطہ کیا گیا اور ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے حکومت کو پیش کردی گئی ہے ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ جسٹس پی سی گھوش کمیشن نے اپنی تحقیقات میں کالیشورم پراجیکٹ میں ہوئی مبینہ بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کیلئے راست سابق چیف منسٹر اور بی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کو ذمہ دار قرار دیدیا ہے ۔ اس کے علاوہ سابق وزراء ٹی ہریش رآؤ اور ایٹالہ راجندر اور کچھ دوسروں کے نام بھی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں شامل کرتے ہوئے انہیں بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ۔ جسٹس پی سی گھوش کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ حکومت اس سارے معاملے کی سی آئی ڈی یا کسی اور ایجنسی کے ذریعہ تحقیقات کا حکم بھی دے سکتی ہے ۔ اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ تلنگانہ کی سیاست میں بھی گہماگہمی پیدا ہوسکتی ہے ۔ الزامات و جوابی الزامات پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔
حکومت اپنے طور پر اس پراجیکٹ کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کے ارادے رکھتی ہے اور کانگریس پارٹی کا جہاں تک سوال ہے تو پارٹی مسلسل الزامات عائد کرتی رہی ہے کہ کالیشورم پراجیکٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ کانگریس قائدین مسلسل الزام عائد کر رہے ہیں کہ مخصوص افراد کو فائدہ پہونچانے کیلئے یہ بے قاعدگیاں کی گئی ہیں اور اس کیلئے راست کے چندر شیکھر راؤ ذمہ دار ہیں۔ بی آر ایس قائدین کی جانب سے ان الزامات کو یکسر مسترد کیا گیا ہے اور ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے ۔ کالیشورم کے مسئلہ پر تلنگانہ کی سیاست میں پہلے ہی سے الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اب جبکہ جسٹس پی سی گھوش کمیشن کی جانب سے تحقیقات کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے اور رپورٹ میں کے چندر شیکھر راؤ اور دوسروں کا نام شامل کیا گیا ہے تو پھر اس مسئلہ پر سیاست ایک بار پھر گرما گرم موڑ اختیار کرسکتی ہے ۔ یہ ایک روایت رہی ہے کہ ایک حکومت کے کام کاج میں دوسری حکومت کی جانب سے تحقیقات کروائی جاتی ہیں۔ اگر کچھ قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں یا جس طرح الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کسی طرح کی دھاندلیاں اور بے قاعدگیاں ہوئی ہیں تو پھر ان کی تحقیقات عام بات ہے ۔ اس پر کسی طرح کی سیاست نہیں ہونی چاہئے کیونکہ تحقیقات کے ذریعہ حقائق کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس پر سیاست کرنے سے سبھی جماعتوں کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔
اگر واقعتا ویسا ہے جیسا تحقیقاتی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے تو پھر اس معاملے کی حقیقی معنوں میں تحقیقات ہونی چائے ۔ پوری دیانتداری اور غیرجانبداری کے ساتھ متلقہ ایجنسی کے ذریعہ تحقیقات کروائی جانی چاہئیں۔ جو کچھ بھی حقائق رہے ہیں ان کا پتہ چلاتے ہوئے منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے تو اس کو سیاسی مسئلہ بنانے کی بجائے تحقیقات میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے ۔ تحقیقات کے ذریعہ حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکتا ہے اور حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کا عوام کو حق ہے ۔ اس مسئلہ پر آگے کیا کارروائی شروع کی جاتی ہے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی ۔