جی رہا ہوں جو محبت کا سہارا لیکر
ایک سب سے بڑی تہمت تو مرے سر ہے یہی
کانگریس ‘ششی تھرور اور بے چینی
کانگریس پارٹی کے ساتھ ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ اس کے کسی نہ کسی لیڈر کی جانب سے اس طرح کی بیان بازیاں کی جاتی ہیں جن کے نتیجہ میں پارٹی کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں بی جے پی یا دوسری سیاسی جماعتیں سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ الگ الگ قائدین کے بیانات کے نتیجہ میں پارٹی میں الجھن پیدا ہوتی ہے ۔ بی جے پی انہیں استعمال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرلیتی ہے یا پھر پارٹی میں پھوٹ کی راہ ہی ہموار کردیتی ہے ۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان مثالوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو قائدین پارٹی کے موقف یا اس کی پالیسیوں کے خلاف بیانات دیتے ہیں ان کی ستائش بی جے پی کی جانب سے بلکہ خود وزیر اعظم نریندرمودی کی جانب سے شروع کردی جاتی ہے ۔ اس کی مثال سابق کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کے معاملے سے لی جاسکتی ہے ۔ غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھی میں وزیر اعظم نے زبردست ستائش کی تھی ۔ غلام نبی آزاد کانگریس قیادت سے ناراض تھے ۔ ان کو راجیہ سبھا کیلئے دوبارہ نامزد نہیں کیا گیا تھا ۔ غلام نبی آزاد نے بالواسطہ طور پر پارٹی سے سوال شروع کردئے تھے ۔ اس صورتحال کا بی جے پی اور مودی حکومت نے فائدہ اٹھایا ۔ چند منٹ کیلئے پارلیمنٹ میںغلام نبی آزاد کی تعریفوں کے پل باندھے گئے پھر بی جے پی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئی ۔ غلام نبی آزاد کانگریس سے دور ہوگئے ۔ جموں و کشمیر میں انہوں نے اپنی علاقائی جماعت قائم کی ۔ کچھ دن سیاست میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی تاہم بعد میں وہ گوشہ گمنامی میں چلے گئے ۔ کانگریس ایک بڑی سیاسی جماعت ہے ۔ اس کے باوجود اسے ایک سینئر اور تجربہ کار لیڈر سے محروم ہونا پڑا تھا تاہم پارٹی اپنی جگہ برقرار ہے ۔ غلام نبی آزاد سیاسی منظرنامہ سے غائب ہوگئے ۔ اب یہی حکمت عملی ایک طرح سے کانگریس کے تھرواننتاپورم کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کے تعلق سے اختیار کی جا رہی ہے ۔ تھرور بھی کانگریس کے موقف کے برخلاف بیانات دے رہے ہیں۔ لب کشائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ششی تھرور ایک بڑے دانشور کہے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی کام کرچکے ہیں۔ خارجہ تعلقات کے معاملہ میں گہری نظر رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ خود کو پارٹی موقف سے بالاتر سمجھتے ہوئے بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ جہاںتک بیان بازی کی بات ہے تو بات یہیں تک محدود نہیں ہے ۔ وہ مودی حکومت اور خود نریندرمودی کی تعریف کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے ہیں۔ کانگریس کے بیانر تلے سیاسی کیرئیر شروع کرنے اور رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے لگاتار کامیابی کے باوجود مودی حکومت اور نریندر مودی کی ستائش پر پارٹی حلقوں اور قائدین میں ایک طرح کی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ جس طرح ششی تھرور مودی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کی تائید کر رہے ہیں اسی طرح مودی کی جانب سے بھی ششی تھرور کی تعریف کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کسی تقریب میں ان کی شرکت کو کانگریس قائدین کی نیندیں اڑنے کی وجہ بتایا جارہا ہے ۔ اس سب کے باوجود ششی تھرور کی بیان بازیوں اور مودی حکومت کی مدح سرائی میں کوئی تبدیلی یا کمی نہیںآئی ہے ۔ کانگریس قائدین میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ تھرور اس معاملے میں اپنی حدود کو پھلانگنے لگے ہیں۔ انہیں پارٹی کے موقف اور مفادات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم اپنے دانشورانہ انداز کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے تھرور کی بیان بازیاں جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی کے حلقوں اور کچھ قائدین میں اس تعلق سے بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔
یہ خیال مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ششی تھرور کانگریس اور اس کی قیادت پر دباؤ کی کیفیت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیرالا میں اسمبلی انتخابات سے قبل وہ اپنے لئے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ کیرالا میں کانگریس کے چیف منسٹرامیدوار بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر اس میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ اپنے لئے سیاسی امکانات کوبرقرار رکھنا چاہتے ہیں اسی لئے کانگریس کے موقف کے برخلاف بیان بازیوں میں کمی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کانگریس کو اس بات کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور پس پردہ چلائی جانے والی کسی بھی سازش کو پوری حکمت عملی کے ساتھ ناکام بنانے پر توجہ کرنی چاہئے ۔