جیسے اجل بھی روٹھ گئی ہے ترے بغیر
ٹھکرا گئی حیات مگر جی رہے ہیں ہم
کانگریس میں داخلی خلفشار
کانگریس پارٹی ملک کی سب سے قدیم پارٹی ہے اور ملک پر سب سے زیادہ وقت تک حکمرانی کرنے والی جماعت ہے اس کے باوجود آج اس پارٹی کا بتدریج شیرازہ بکھرنے لگا ہے ۔ کانگریس میں وقفہ وقفہ سے داخلی اختلافات اور خلفشار بھی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس خلفشار کو عملی طور پر پارٹی کی داخلی جمہوریت سے اور اظہار خیال کی آزادی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی کوئی لیڈر کسی مسئلہ پر ناراضگی ظاہر کرتا ہے اور پارٹی قیادت سے اختلاف رکھتا ہے تو یہ کانگریس کیلئے نئی بات نہیں ہے ۔ تاہم 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے پارٹی میں جو اختلافات اور خلفشار چل رہا ہے وہ داخلی جمہوریت ہرگز نہیںہوسکتی ۔ یہ در اصل پارٹی میں نظریاتی اور اختلافی امور کی شدت کی عکاس ہے ۔ پارٹی میں جس طرح سے لوگ اقتدار کی دوری کے نتیجہ میں خیالات کا اظہار کر رہے ہیں یا انہیں ہوا دی جا رہی ہے وہ پارٹی کیلئے کسی بھی قیمت پر اچھی علامت نہیں ہوسکتی ۔ یہ در اصل پارٹی کو کھوکھلا کرنے والی سرگرمیاں ہیں اور اس کا راست اثر کانگریس کے تنظیمی ڈھانچہ اور اس کے انتخابی اثرات پر مرتب ہو رہا ہے ۔ جب تک کانگریس پارٹی اپنے گھر کو درست نہیں کرتی اور تمام قائدین کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک قابل قبول فارمولا تیار نہیں کرتی اس وقت تک پارٹی کے امکانات بہتر ہونے کے آثار نظر نہیں آتے ۔ کانگریس کی صدارت کے مسئلہ پر جس طرح سے سینئر قائدین نے مکتوب روانہ کیا تھا اور پھر انہیں جس طرح سے نشانہ بنایا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ یہ صورتحال کانگریس پارٹی کو بتدریج کمزور کرتی جا رہی ہے ۔ ذمہ دار اور سینئر قائدین کی رائے اگر اختلافی ہو اور پارٹی قیادت کے خیال سے مختلف بھی ہو تو ان کا احترام کیا جانا چاہئے اور جو اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں انہیں عوام کے درمیان پہونچنے سے قبل ہی حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی شکست کی جو کچھ بھی وجوہات رہی ہیں لیکن اس کی ذمہ داری اب کانگریس پر عائد ہو رہی ہے اور اس سے کانگریس پارٹی خود کو بری بھی قرار نہیں دے سکتی ۔ یہ سارا کچھ پارٹی میں تنظیمی اور قیادت کے فقدان کا نتیجہ ہے ۔
جس طرح سے حالات تیزی سے تبدیل ہوتے جا رہے ہیںیا آئندہ وقتوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ کرتے ہوئے کانگریس کوکم از کم اب اپنے مستقبل کا تعین کرلینے اور اس کی تیاری کرلینے کا وقت آن پہونچا ہے ۔ اگر کانگریس پارٹی اب بھی حالات کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر رہی اور جو حالات ہیں انہیں حل نہیں کیا گیا تو پھر صورتحال پارٹی کیلئے ایسی ہوسکتی ہے جب اس کا احیاء کرنا مشکل ہوجائیگا ۔ قومی سطح پر بی جے پی کا مسلسل استحکام اور انتخابی کامیابیاں عوام کے اور خاص طور پر کانگریس قائدین اور کیڈر کے حوصلوں پر لازمی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں عوام کو ملک کو درپیش حقیقی مسائل سے واقف کروانا کانگریس کی ذمہ داری ہے ۔ ان میں شعور بیدار کرنا کانگریس کی ذمہ داری ہے اور علاقائی اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر کام کرنا کانگریس کی ذمہ داری ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی ان ذمہ داریوں میں ناکام ہوتی جا رہی ہے ۔ مسلسل ناکامیاں لازمی طورپر قائدین اور کیڈر کے حوصلے پست کرتی ہیں اور ایسا اب زیادہ ہونے لگا ہے ۔ کانگریس میں جو داخلی خلفشار ہے وہ ان سارے مسائل کی اصل وجہ ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنا پارٹی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔ جب تک کانگریس قیادت ایک خول سے باہر آ کر حالات سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اور وقت کے تقاضوں کی تکمیل کرنے تیار نہیں ہوتی اس وقت تک پارٹی میں اختلافات اور داخلی خلفشار کو دور کرنا اس کیلئے آسان ہرگز نہیں رہے گا ۔
کانگریس قیادت کو ملک اور ملک کے عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی اور انہیں پورا کرنے کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔ اسے اپنی کمزوریوں کا پوری دیانتداری کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے انہیں دور کرنے کیلئے تیار ہونا چاہئے ۔ اسے اپنے قائدین کی رائے کا احترام کرنے بھی خود کو تیار کرنا ہوگا ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس کے کسی ایک لیڈر کا آج وہ سیاسی قد نہیں ہے جس کے سہارے پارٹی کامیابی کے راستہ پر دوبارہ آسکے ۔ اس کیلئے تمام قائدین کا ساتھ لینا اور سبھی کی رائے کو عملی شکل دیتے ہوئے اس پر آگے بڑھنا ضروری ہے اور کانگریس پارٹی یہ کام جتنی جلدی کریگی اتنا ہی اس کیلئے ٹھیک ہوگا ۔
