ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس ان دنوں انتہائی شدید بحران کا شکار ہے ۔ ایک طرح سے یہ کہاجائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ کانگریس کیلئے اپنی بقا کو یقینی بنانا بھی اب آسان نہیںرہ گیا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میںپارٹی کو اپنی توقعات اور عمومی خیال کے برخلاف جب بدترین شکست ہوئی تو یہ اشارے مل رہے تھے کہ کانگریس کیلئے آگے کا سفر آسان نہیںہوگیا لیکن جب کانگریس کے صدارتی عہدہ سے راہول گاندھی نے استعفی کا اعلان کردیا تو پارٹی کی مشکلات میںاضافہ ہوگیا ہے ۔ کانگریس پارٹی راہول گاندھی کا استعفی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور راہول گاندھی اس کو واپس لینے رضامند نہیںہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کانگریس میں عملا ایک قسم کا تعطل پیدا ہوگیا ہے ۔ راہول گاندھی نے لوک سبھا میں کانگریس لیڈر کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی ہے اسی وجہ سے یہ ذمہ داری سینئر ایم پی آدھیر رنجن چودھری کو سونپی گئی ہے ۔ راہول گاندھی کو منانے کیلئے کئی گوشوںسے کوششیں ہوئی ہیں لیکن راہول گاندھی اپنے فیصلے پر اٹل ہیں اور وہ یہ عہدہ چھوڑنے پر بضد ہیں۔ انہوںنے کئی موقعوں پر سر عام بھی اہم مسائل پر رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے یہ ذمہ داری پارٹی پر چھوڑ دی ہے ۔ ایک طرح سے راہول گاندھی اپنے فیصلے اورا ٹل موقف سے ان قائدین کیلئے ایک پیام دینے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے انتخابات میںپارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے اور اپنی اولاد کے مفادات کو ترجیح دینے کی کوشش کی تھی ۔ یہ لوگ اب بھی اپنے عہدوں پر چمٹے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کی شکست نے ان پر کوئی اثر نہیںکیا ہے ۔ انہیں یہی اطمینان کافی نظر آتا ہے کہ ان کے عہدے برقرار ہیں اور وہ اپنے انداز میں کام کرتے رہیں گے لیکن شائد راہول گاندھی نہیں چاہتے کہ ایسا ہو ۔ انہوںنے خود استعفی کا اعلان کیا اورا س فیصلے پر اٹل رہتے ہوئے وہ اشوک گہلوٹ ‘ کمل ناتھ اور پی چدمبرم جیسے قائدین کو ایک پیام دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ گہلوٹ اور کمل ناتھ چیف منسٹروں کے عہدوں پر فائز ہیں۔ انہیں یہ عہدے بھی راہول گاندھی کی جارحانہ مہم کی وجہ سے ہی حاصل ہوئے ہیں۔
بحیثیت مجموعی کانگریس میں تعطل پیدا ہوگیا ہے ۔ یہ تعطل نہ پارٹی کیلئے اچھا کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی کانگریس قائدین کیلئے ۔ اس کے علاوہ یہ تعطل ہندوستان کے عوام کیلئے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ حکومت کے مقابلہ میں ایک مستحکم اپوزیشن جمہوریت کے استحکام کیلئے ضروری ہے ۔ دیگر جو جماعتیں ہیں ان کا حال بہت برا ہے ۔ وہ بھی بکھرنے کے قریب ہیں اور اگر اپوزیشن کی صفوںمیںاستحکام پیدا نہیں ہوگا تو یہ ملک کی جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہوگی ۔ اپوزیشن کی صفوںمیں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود استحکام پیدا کرنے کی ذمہ داری اب بھی کانگریس ہی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس ناگفتہ بہ حالت میں بھی کانگریس ہی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے ۔ راہول گاندھی اپنا استعفی واپس لیتے ہیں یا نہیںیہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا لیکن جہاں تک کانگریس کا سوال ہے اسے یہ تعطل ختم کرنے کیلئے حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔ یا تو راہول گاندھی کو فوری طور پر منالیا جائے یا پھر ان کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے کسی اور لیڈر کو اس کی ذمہ داری سونپی جائے ۔ کانگریس اس تعطل کو ختم کرنے میں جتنی دیر کریگی اس کیلئے اتنی ہی مشکل پیدا ہوتی جائیگی ۔ جو نقصان کانگریس کو ہوناتھا وہ ہوچکا ہے اور اب اس کا ازالہ کرنے اور پارٹی کو از سر نو مجتمع کرنے اور پارٹی کی صفوں میں نئی جان ڈالنے کیلئے کانگریس اور اس کے ہر لیڈر کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔
ملک کی چند ریاستوںمیں آئندہ چند مہینوں میںانتخابات ہونے والے ہیں۔ان کی تیاری بھی کانگریس کو کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو شکست ہوئی ہے اس کو قبول کرتے ہوئے از سر نو پارٹی کے تعلق سے رائے دہندوں میںاعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کیڈر کو سب سے پہلے حرکت میںلانا ہوگا اور کیڈر کو عوام کے درمیان بھیجنا ہوگا ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب خود پارٹی از سر نو خود کو مجتمع کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ ایک نئے لیڈر کا انتخاب کیا جائے اور اسے پارٹی میں رد و بدل اور تبدیلیوں کا پورا موقع دیا جائے ۔ خود کانگریس اپنے آپ میں اعتماد پیدا کرے اور حوصلہ کے ساتھ صورتحال کا سامنا کرے ۔ حکومت کے مد مقابل خود کو پیش کرتے ہوئے ملک کے عوام میں دوبارہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے۔