کجریوال کی رہائی

   

شاید مجھے نکال کر پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
عام آدمی پارٹی کے سربراہ و چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال بالآخر جیل سے رہائی مل گئی ہے ۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات کے پیش نظر مہم چلانے 21 دن کی عبوری ضمانت منظور کی ہے اور انہیں ہدایت دی ہے کہ وہ یکم جون تک اس عبوری ضمانت کی تکمیل کے بعد 2 جون کو خود سپردگی اختیار کرلیں۔ عدالت نے انہیںضمانت فراہم کرتے ہوئے کچھ شرائط بھی عائد کی ہیں اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی مخالفت کے باوجود یہ کہتے ہوئے انہیں ضمانت فراہم کردی ہے کہ ان کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں ہے اور نہ ہی وہ سماج کیلئے کوئی خطرہ ہیں۔ ایسے میں انہیں انتخابات میں مہم چلانے کیلئے عبوری ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جو ضمانت دی گئی ہے وہ خالصتا انتخابی پس منظر کے تحت دی گئی ہے اور عدالت نے یہ واضح بھی کردیا ہے کہ ضمانت کیس کے معیارات کے مطابق نہیں ہے ۔ شراب اسکام کیس کی تفصیلات میں گئے بغیر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات کے پیش نظر عدالت سے عبوری ضمانت عام آدمی پارٹی کیلئے بڑی راحت ہے ۔ عدالت سے ضمانت میں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ کجریوال کو ملک بھر میںانتخابی مہم چلانے کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ وہ اپنی پارٹی اور انڈیا اتحاد کے حق میں جہاں چاہیں مہم چلا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سیاسی اثرات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اروند کجریوال عام آدمی پارٹی کے اسٹار کمپینر ہیں۔ دہلی اور پنجاب میں ان کی حکومتیں ہیں اور وہاں عام آدمی پارٹی لوک سبھا انتخابات میں بہتر مظاہرہ کیلئے کوشاں ہے ۔ ایسے میں کجریوال کو جیل بھیجتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے انہیں مہم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے تاہم انہیں راحت دی ہے اور کہا ہے کہ کجریوال کو گرفتار کرنا ہی تھا تو بہت پہلے کرلیا جاتا یا پھر انتخابات کے بعد ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ۔ عین انتخابات کے موسم میں کجریوال کی گرفتاری کو عدالت نے عملا پسند نہیں کیا ہے اور انہیں عبوری ضمانت دیتے ہوئے اپنی پارٹی اور انڈیا اتحاد کیلئے مہم چلانے کیلئے انہیں اییک موقع فراہم کردیا ہے جو بی جے پی نہیںچاہتی تھی ۔
کجریوال جہاں عام آدمی پارٹی کے اسٹار کیمپینر ہیں اور دہلی اور پنجاب کی انتخابی مہم میں اہم اور سرگرم رول ادا کرسکتے ہیں وہیں وہ انڈیا اتحاد کی ریلیوں میں بھی شرکت کرتے ہوئے انتخابی مہم کو اور بھی موثر بناسکتے ہیں۔ اروند کجریوال بی جے پی کے خلاف بامعنی تقاریر کرنے میںمہارت رکھتے ہیں ۔وہ بی جے پی کے سوالوں کے جہاں سخت جواب دیتے ہیں وہیں وہ بی جے پی اور اس کے تلوے چاٹنے والے اینکرس اور گودی میڈیا سے چبھتے ہوئے سوال کرنے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ ایک سے زائد مواقع پر انہوں نے نہ صرف بی جے پی کے ترجمانوں کو بلکہ بی جے پی کے تلوے چاٹنے والے اینکرس کو بھی قومی میڈیا میں ذلیل و رسواء کیا ہے ۔ انہیں منہ توڑ جوات دیتے ہوئے خاموش کروایا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے بی جے پی کے کالے کرتوتوں وغیرہ کی تفصیل بھی پیش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ دہلی میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کو ملک کی مختلف ریاستوں کے عوام میں پیش کرتے ہوئے ان کی ذہن سازی کرنے کیلئے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف عائد کئے جانے والے کرپشن کے الزامات کا جواب دینے کے علاوہ بی جے پی کے اقتدار والی مختلف ریاستوں میں ہونے والے مبینہ کرپشن اور بدعنوانیوں کے تعلق سے بھی بے خوف تبصرے کرتے ہیں اور انہیں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی شائد نہیں چاہتی تھی کہ کجریوال انتخابی مہم چلائیں۔
عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ اسی مقصد کے پیش نظر بی جے پی نے تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے کجریوال کو جیل بھیج دیا تاکہ وہ انتخابی مہم سے دور رہیں اور اس بارک ے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو جونقصان ہورہا ہے وہ کم سے کم ہوسکے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ دہلی اور ہریانہ میں اپنی تمام نشستوں پر قبضہ برقرار رکھا جائے ۔ پنجاب میں بھی کارکردگی اچھی ہوسکے ۔ تاہم کجریوال کے جیل سے باہر رہتے ہوئے ایسا آسان نہیں ہے اسی لئے بی جے پی نے انہیں جیل پہونچایا تھا ۔ اب جبکہ کجریوال جیل سے باہر آچکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ بی جے پی کے انتخابی امکانات پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں۔