کرناٹک ‘ انسداد تبدیلی مذہب قانون

   

راہیں دشوار ہیں غم کی بہتات ہے
راز جینے کا ہم کو سکھا دیجئے
جنوبی ریاست کرناٹک میں سدا رامیا کی قیادت والی حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ابھی ایک ماہ کا وقت بھی نہیں گذرا ہے لیکن اس نے اپنے انتخابی وعدوں پر عمل کا آغاز کردیا ہے ۔ ریاستی حکومت نے غریب عوام کیلئے 200 یونٹ تک مفت بجلی کا یکم جولائی سے آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو خواتین کیلئے بسوں میں مفت سفر کی سہولت کا پہلے ہی آغاز کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ عوام کو جو دیگر پانچ گیارنٹیاں دی گئی تھیں ان کو بھی کابینہ نے منظوری دیدی ہے ۔ اسی طرح کرناٹک میں کانگریس پارٹی نے سابقہ بسواراج بومائی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ انسداد تبدیلی مذہب قانون کو بھی واپس لینے کا اعلان کردیا ہے ۔ اس فیصلے کو بھی ریاستی کابینہ نے منظوری دیدی ہے ۔ سدارامیا حکومت نے اسکولی نصاب میں بھی جو تبدیلیاں کی گئی تھیں ان کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بی جے پی حکومت میں اسکولی نصاب سے ٹیپو سلطان کے تذکرہ کو ختم کرتے ہوئے آر ایس ایس قائدین ہیڈگیوار اور ساورکر سے متعلق مضامین شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ تاہم سدارامیا حکومت نے ان اسباق کو نصاب سے خارج کردینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ تعلیم میں اس طرح کی دخل اندازی نہیں کی جانی چاہئے تھی تاہم بی جے پی کے اس اقدام کو اب کانگریس کی سدارامیا حکومت نے ختم کردینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جہاں تک انسداد تبدیلی مذہب قانون کا سوال ہے تو ملک میں قومی سطح پر پہلے ہی سے زور زبردستی ‘ لالچ یا دباؤ کے تحت مذہب تبدیل کروانے کو روکنے کیلئے قانون موجود ہے ۔ اس کے باوجود ملک کی مختلف ریاستوں مںے بی جے پی کی حکومتوں نے نیا قانون متعارف کروایا تھا ۔ اس طرح کے قوانین پر کئی گوشوں کی جانب سے تنقیدیں ہو رہی تھیں۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی اپنی حکومتوں کے ذریعہ اس طرح کی قانون سازی کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ سے اس طرح کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے ۔ تردید کے باوجود اپنے طور پر قانون سازی اور اس کے بیجا استعمال کا سلسلہ کئی ریاستوں میں جاری رہا تھا ۔
ملک کی عدالتوں نے بھی ایک سے زائد موقع پر واضح کیا کہ مذہب ایک خالص شخصی معاملہ ہے ۔ اس میں کسی کو مداخلت کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ مذہب کی تبدیلی کی جہاں تک بات یہ تو یہ بھی ایک انتہائی شخصی فیصلہ ہے ۔ اس میں کسی طرح کی لالچ ‘ زبردستی یا کسی طرح کے دباؤ کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ ملک کے دستور اور قانون میں ہر فرد کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس مذہب کی چاہے پیروی کرسکتا ہے ۔ کسی بھی مذہب کو اختیار کرسکتا ہے۔ تاہم اس میں کسی دباؤ یا لالچ کا کوئی عنصر نہیں ہونا چاہئے ۔ بی جے پی کا اور اس کی ہمنوا تنظیموں کا جہاں تک سوال ہے وہ ہر معاملہ خود طئے کرنا چاہتی ہے ۔ اگر کوئی اپنی آزادانہ مرضی سے کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو بی جے پی اس میں بھی رکاوٹ بننا چاہتی تھی ۔ وہ محض عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ اسے ملک کے عوام کے مسائل اور ان کی یکسوئی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ حلال ‘ حرام ‘ حجاب ‘ ٹیپو سلطان جیسے مسائل میں ہی کرناٹک کے عوام کو الجھا کر رکھتی رہی تھی جس کا خمیازہ اسے انتخابات میں بھگتنا پڑا ہے ۔ ریاست کے عوام نے اپنے بنیادی مسائل کو اہمیت دیتے ہوئے بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو مسترد کردیا تھا اور کانگریس کو موقع دیا ہے ۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں ریاست کے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان پر عمل آوری کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔
ریاست میں کانگریس نے انسداد تبدیلی مذہب قانون پر نظرثانی کرنے اور ضرورت پڑنے پر اس کو منسوخ کردینے کا بھی ریاست کے عوام سے وعدہ کیا تھا ۔ عوام نے اس وعدہ کو بھی ذہن نشین رکھتے ہوئے ووٹ دیا تھا اور اب کرناٹک کابینہ نے اس قانون کی تنسیخ کو منظوری دیدی ہے ۔ اس تعلق سے اسمبلی میں ضروری قانون سازی کی جائے گی ۔ یہ کانگریس حکومت کی ایک اچھی پہل ہے ۔ حکومتوں کی ترجیح مذہبی سرگرمیاں نہیں بلکہ ترقیاتی سرگرمیاں ہونی چاہئیں۔ عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہئے ۔ مذہب ‘ غذا اور لباس کا جہاں تک معاملہ ہے یہ عوام کی مرضی پر منحصر ہے اور اس میں کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔