فضاء میں تازگی آئے گی یہ یقیں ہے مجھے
کہ منتظر یہ گلستاں ہے کون سمجھے گا
کرناٹک میں چیف منسٹر سدارامیا نے ریاست کا بجٹ پیش کیا ۔ یہ چیف منسٹر سدارامیا کی جانب سے پیش کیا گیا 16 واںریکارڈ ریاستی بجٹ تھا ۔ اس بجٹ میںحکومت کرناٹک نے فلاحی اسکیمات اور کانگریس کی جانب سے کئے گئے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں قرض کے حصول کی بھی ایک حد مقرر کردی گئی ہے ۔ بجٹ میں اقلیتی برادریوں کیلئے رقومات میںکچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے ۔ ریاستی وقف بورڈ کیلئے 150 کروڑ روپئے فراہم کئے گئے ہیں اس کے علاوہ مسلمان ‘سکھ اور جین مذہبی رہنماوں کیلئے ماہانہ اعزازیہ کو کم از کم 5000 روپئے کرنے بھی رقمی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں مختلف طبقات کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے بھی رقومات فراہم کی گئی ہیں اور ریاست کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے کئی اسکیمات کو بھی شامل رکھا گیا ہے ۔ اس بجٹ پر بی جے پی چراغ پا ہوگئی ہے ۔ بی جے پی نے خاص طور پر مسلم برادری کیلئے رقومات فراہم کرنے پر شدید اعتراض کیا ہے اور طنز کرتے ہوئے اسے حلال بجٹ تک قرار دینے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ یہ بی جے پی کی انتہائی منفی اور جنونی سوچ کی عکاسی ہے کہ سماج کی ایک بڑی برادری کیلئے معمولی سی رقومات فراہم کئے جانے پر اس نے واویلا مچانا شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی نے الزام عائد کیا کہ کانگریس حکومت نے ترقی پر خوشامد کو ترجیح دیتے ہوئے یہ بجٹ تیار کیا ہے۔ بی جے پی کے کرناٹک یونٹ کے ترجمان نے تو حد کرتے ہوئے ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے اسے حلال بجٹ سے تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کے تعلق سے کس قدر زہر آلود سوچ رکھتی ہے اور وہ انہیں معمولی سی راحت بھی فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے اور اگر کوئی اور فراہم کرے تو اسے برداشت بھی کرنے کو پارٹی تیار نہیں ہے ۔ یہ بی جے پی کی بیمار ذہنیت ہے جو مزید کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ مرکز میں حکمران اور ملک کی کئی ریاستوں میں اقتدار رکھنے والی بی جے پی کو اس طرح کی سوچ سے گریز کرنا چاہئے جو انتہائی منفی اور بیماری کی علامت ہے ۔
بی جے پی کی مرکزی حکومت ملک میں سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس جیسے دکھاوے کے اور کھوکھلے نعرے دیتی ہے لیکن مرکزی حکومت نے خود بتدریج اقلیتی بجٹ کو ختم کرنا شروع کردیا ہے ۔ا س میں ہر سال کمی کی جا رہی ہے۔ تعلیمی اسکالرشپس تک کو برخواست کردیا گیا ہے ۔ جو اسکالرشپس بحالت مجبوری برقرار رکھی گئی ہیں ان کی رقومات میں بھی کمی کی جا رہی ہے ۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ کچھ ریاستوں میں جہاں کانگریس یا دوسری جماعتوں کی حکومتیں ہیں اگر وہ اقلیتوں کیلئے کچھ حصہ داری فراہم کرنے اقدامات کرتی ہیں اور بجٹ میں ان کیلئے کچھ راحت کاسامان کرتی ہیں تو بی جے پی کو یہ بھی برداشت نہیں ہو پا رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں سماجی ‘ تعلیمی اور تجارتی و سیاسی اعتبار سے سب سے پسماندہ ترین قوم اگر کوئی ہے تو وہ مسلمان ہیں ۔ دوسری اقلیتوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ ایسے میں کوئی ریاستی حکومت اگر اقلیتوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے انہیںکچھ رقومات فراہم کرتی ہیں تو بی جے پی چراغ پا ہوجاتی ہے ۔ وہ بے چین ہو اٹھتی ہے۔ بی جے پی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں ہر شہری اور ہر مذہب کے ماننے والوں کا برابر کا حصہ ہے اور ہر ایک ملک کی ترقی میں اپنا رول ادا کرتا ہے ۔ اگر حکومتیں اقلیتوں کی داد رسی نہیں کریں گی تو پھر کس سے امید کی جاسکتی ہے ؟ ۔ فرقہ پرستانہ اور متعصب سوچ سے گریز کرتے ہوئے تمام طبقات کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
بی جے پی اگر خود اپنے طور پر اقلیتوں کیلئے کچھ نہیں کرتی ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے حالانکہ اسے ملک کے تمام طبقات کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہئے ۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مذہبی و لسانی یا ذات پات کو خاطر میں لائے بغیر ملک کے تمام عوام کی بہتری کیلئے کام کرے لیکن بی جے پی ایسا کرنے اور اپنی دستوری ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہے ۔ کچھ ریاستی حکومتیں اگر ایسا کر رہی ہیں تو اس پر بھی واویلا مچانے سے بی جے پی کو گریز کرنا چاہئے اور واقعتا سب کا ساتھ اور سب کا وکاس یقینی بنانا ہے تو دوسروں کے اقدامات کی بھی حمایت کی جانی چاہئے اور خود بھی اقلیتوں کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔