کسبِ حلال کی فضیلت

   

از: مفتی محمد وقاص رفیع مرسلہ : سعدیہ محمد
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا(اصل) فرائض کے بعد فرض ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے بھی حلال مال کماکر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوگا۔(صحیح ابن حبان) حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داوٴد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔(صحیح بخاری) اِس سے معلوم ہوا کہ مطلق مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں،بلکہ حلال اور جائز طریقے سے مال کمانا عبادت ہے۔حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو کجا اُلٹا سخت گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لیکن افسوس کہ آج کل لوگ مال کمانے کی حرص میں اِس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے کہ حلال طریقے سے کما رہے ہیں یا حرام طریقے سے،بلکہ آج کل تو لوگ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اوردو نمبری کے ذریعہ مال کمانے کو کمالِ ہنر سمجھتے ہیں اور اسے اپنی ہوشیاری و چالاکی خیال کرتے ہیں، حالاں کہ حقیقت میں یہ دوسروں کے ساتھ نہیں، بلکہ اپنے ساتھ ہی دھوکہ فریب ہے اور ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔
چناں چہ قرآنِ مجید ا ور ا حادیث مبارکہ میں متعدد جگہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ نے ایمان والوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز اور ناحق طور پر کھانے سے بڑی سختی سے منع کیا ہے،چناں چہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاوٴ!اِلا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو(تو وہ جائز ہے)(سورة النساء:۲۹)
علماء نے ناحق طریقے سے مال کھانے کے ضمن میں بے شمار چیزیں ذکر کی ہیں، جن میں سے ڈکیتی،چوری، رشوت، سود، جوا،غصب، خیانت ، ناپ تول میں کمی بیشی، دھوکہ دہی،ذخیرہ اندوزی ، مالِ یتیم میں خرد برد اور جھوٹی قسم سے حاصل کیا گیا مال سر فہرست ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاوٴ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے موٴمن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاوٴ! اس کے بعد حضور ﷺنے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم ، جامع ترمذی)