کشمیر اصل میں ’’کاسمیر‘‘ ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے ۔ ضرورتِ شعری میں کشمیر کو اکثر ’’کاشمیر‘‘ لکھتے ہیں۔ کشمیر کو ’’کشمر‘‘ بھی کہا گیا ہے ۔ سنسکرت میں ’’کا‘‘ بمعنی پانی اور ’’شمیرا‘‘ کے معنی پانی سے نکال کر خشک کرنا ہے ۔ یعنی قدیم زمانے میں کشمیر ایک بہت ہی لمبی چوڑی پہاڑی جھیل تھی بعد ازاں وہ زمین کہلائی جسے پانی سے نکال کر خشک کیا گیا ہے۔ بعض سیاحوں نے اس کو ’’زبدۃ الاقالیم ‘‘کہا ہے ؎
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
اس معنی و مفہوم کو اُردو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
فطرت نے جو کھینچی ہے وہ تصویر یہی ہے
فردوس زمیں ، جنتِ کشمیر یہی ہے
قدرت نے کشمیر کو بڑی فیاضی سے نوازا ہے ، دنیا میں سب سے بڑے بڑے پہاڑ ، بڑی بڑی جھیلیں اور لمبے لمبے دریا ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے دریاؤں ، ندی ، نالوں ، چشموں ، چھوٹی چھوٹی جھیلوں ، تالابوں اور معمولی بلندی کے پہاڑوں کے یکجا ہونے سے جو کیفیت اور ہوا قدرت نے یہاں پیدا کی کسی دوسرے خطے کو نصیب نہیں ۔ جب جہانگیر بادشاہ بستر مرگ پر تھا تو پاس بیٹھے مصاحب نے ادب سے پوچھا ’’کوئی خواہش ‘‘ تو جہانگیر نے پرحسرت آنکھیں کھولیں اور دھیمی آواز سے کہا ’’کشمیر اور بس ‘‘ ۔
کشمیر صورت طبیعی ، قدرتی خوشنمائی ، دلآویزی ، مناظر کی خوبصورتی ، پھولوں کی فراوانی ، میوؤں کی زیادتی ، آب و ہوا میں لطافت و فرحت اور روح زندگی کی فراوانی ، بھینی بھینی خوشبودار عطر بیز کیف آور ہوائیں ، جھیلوں اور نالوں کا شفاف پانی ، ندیاں ، نالے آبشار ، برف کے تودے ، ہر انچ زمین پر سبزہ ، باغات میں چناروں اور فواروں کی قطاریں جو کچھ بھی ہے لاجواب ،حسن در حسن ہے ۔
کیونکر مشام جاں ، خوشبو سے معطر ہو
جی بھر کے یہاں کی ہے فطرت نے گل افشانی
فطرت نے بکھرے ہیں ہر سمت حسیں جلوے
اس وادیٔ رنگیں کا ہر جلوہ ہے لافانی
اس جنت نشاں کے مکین حورو غلماں ہونے چاہئے تھے لیکن شومئہ قسمت وہ خطہ عرصہ دراز سے عسرت ، مفلوک الحالی ، بدامنی اور سیاسی انتشار کا شکار رہا جس کے راست منفی اثرات اس خطہ کی ترقی اور وہاں کے باشندگان کی خوشحالی پر مرتب ہوتے رہے ۔ حالیہ عرصے میں ایک طویل کشمکش کے بعد جموں و کشمیر میں امن و امان بحال ہوا ۔ سیاحین کی روز بروز تعداد بڑھنے لگی ، مقامی باشندگان کے لئے روزگار کی کچھ سہولتیں میسر آئی تھیں کہ ۲۳؍ اپریل ۲۰۲۵ کو دہشت گردوں نے پھر ایک بار بزدلانہ حرکت کی اور سیاحوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ۲۸ افراد لقمہ اجل ہوگئے جن میں اکثریت ہندو طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور صد افسوس کے حملہ آوروں نے شناخت پوچھ کر ہندو بھائی بہنوں کو نشانہ بنایا ، تاہم بعض مسلمان بھی سیاحوں کو بچانے میں اپنی جان دھو بیٹھے ۔
حملہ آور گرچہ وہ اسلام کے پیروکار کیوں نہ ہو معصوم شہریوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں ، وہ از روئے شرع سزائے موت کے مستحق ہیں ، بعد تحقیق و ثبوت ان کو سزا دینا درحقیقت انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے اور اس وحشیانہ حملہ کے سبب جموں و کشمیر میں سیر و سیاحت بری طرح متاثر ہوگئی اور لاکھوں افراد جن کی روٹی روزی کا دارومدار سیاحوں کی آمد پر موقوف تھا ان کے سارے خاندان اس سے متاثر ہوں گے ۔ عین حملے کے دوران مقامی مسلمانوں نے متاثرین کو بچانے اور امداد فراہم کرنے میں مثالی کردار ادا کیا وہ یقینا عنداللہ ماجور ہوں گے ۔ نیز عادل حسین شاہ نامی کشمیری مسلمان حملہ آوروں کو روکنے اور اُن سے ہتھیار کھینچنے کے دوران شہید ہوگیا اور اس کی قربانی ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائیگی ۔
دہشت گردی درحقیقت امن و امان کی فضاء کو مکدر کرنے اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کا نام ہے ۔ دہشت گرد اپنے مزعومہ مقاصد کے لئے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں ۔ دہشت گردی امن و سکون کے لئے ایک ناسور ہے ، جس کے انسداد کے لئے جدوجہد کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے ۔ کیونکہ امن و سکون ہی ہر انفرادی اور اجتماعی سماج کی خوشحالی اور ترقی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے خوف و دہشت سے نجات دیکر امن و سکون فراہم کرنے پر اظہار نعمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’پس چاہئے کہ وہ اس رب کی عبادت کریں جس نے ان کو بھوک سے کھانا کھلایا ہے اور خوف و دہشت سے امن و سکون عطا فرمایا ‘‘ (سورۃ القریش : ۳۔۴)
دہشت گردی کی تعریف میں بے حساب نظریات پائے جاتے ہیں تاہم عمومی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی بھی ذریعہ سے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا دہشت گردی ہے اور ہم اس کو زمین میں فساد کی ایک خطرناک شکل بھی کہہ سکتے ہیں۔ زمین میں فتنہ و فساد ، قتل و غارتگری ، ظلم و زیادتی اور خونریزی و سفاکی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو قطعاً پسند نہیں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے واضح طورپر ارشاد فرمایا کہ ’’اور اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ( دولت ) تمہیں دی ہے ، اس میں آخرت کو طلب کرو اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھولو اور احسان کرو جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا اور زمین میں فساد و شرانگیزی نہ چاہو ۔ یقینا اﷲ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ‘‘۔
( سورۃ القصص؍۷۷)
دہشت گردی کا شکار بلالحاظ مذہب و ملت ساری انسانیت ہورہی ہے اس لئے اس کے خلاف مذہب و ملت ، رنگ و نسل اور ملک و قوم سے بالاتر ہوکر عالمی اور کل مذہبی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔