عرفان جابری
زائد از تین ماہ سے دنیا بھر میں کورونا وائرس عالمی وبا (متعدی بیماری) نے بلالحاظ براعظم لوگوں کو خوف میں مبتلا کررکھا ہے، جس کی خاص وجہ سات، آٹھ ملکوں میں پیش آئی ہزاروں اموات ہیں جو اِس وائرس سے منسوب کی گئیں۔ ان ملکوں میں چین، اٹلی، ایران، اسپین، فرانس، امریکہ، برطانیہ شامل ہیں۔ یہ وائرس چینی شہر ووہان سے اواخر ڈسمبر 2019ء میں شروع ہوا، اسے COVID-19 کا مختصر نام دیا گیا ہے۔ میں یہیں پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ وائرس دنیا کے ہر خطہ کیلئے اُتنا مہلک نہیں جتنا باور کرایا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں۔ ضرور کریں: ماسک لگائیں، سینیٹائزر استعمال کریں، سماجی فاصلہ کو حتی المقدور برقرار رکھیں، وغیرہ۔
تاہم، ہندوستان اور افریقی براعظم میں اس کا اثر شدید نہیں ہے، مگر مودی حکومت اور کئی ریاستی حکومتوں بشمول تلنگانہ نے ’جنتا کرفیو‘ سے شروعات کرتے ہوئے ’لاک ڈاؤن‘ کے ذریعے ایسا ماحول برپا کررکھا ہے جیسا کہ انھیں ہندوستانی عوام اور اُن کی صحت کی بہت فکر ہے! کورونا وائرس کے بارے میں کچھ جانکاری آگے کی سطروں میں پیش کروں گا۔ فوری طور پر وزیراعظم مودی پر توجہ دینا ضروری ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومتیں عوام پر توجہ دیں، لیکن ہمارے وزیراعظم کی حالت اب دیکھی نہیں جاتی، اُن کو رخصت کردینا ہندوستان کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے ناگزیر ہے۔
مودی قوم کیلئے صرف نقصان دہ
قارئین کرام کی بڑی اکثریت نے نریندر مودی کی زندگی کے بارے میں ضرور پڑھا ہوگا کہ کیسے وہ بچپن میں خود اُن کے بقول چائے بیچا کرتے تھے اور کس طرح وہ اَدھیڑ عمر میں چیف منسٹر گجرات بنے اور پھر وزیراعظم ہند کے اعلیٰ عوامی منصب تک پہنچ گئے۔ انھوں نے چیخ چیخ کا کہا تھا کہ وہ چیف منسٹر کی حیثیت سے 13 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ گجرات کی طرح ملک کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے زیادہ اہل ہیں۔ گزشتہ چھ برسوں میں پتہ چلا کہ وہ کتنے اہل ہیں؟ ابتدائی پانچ سالہ میعاد میں انھوں نے دستوری عہدوں اور سرکاری اداروں کو کھوکھلا کیا۔ اور دوسری میعاد شروع ہوتے ہی ان عہدوں اور اداروں کا استحصال شروع کردیا۔ یکایک کورونا وائرس نے مودی حکومت کی ’’نامعقول سرگرمیوں‘‘ پر روک لگا دی ہے!
جھوٹا، دھوکہ باز، فرقہ پرست
اس پورے عرصے میں مودی نے کئی موقعوں پر اپنے بارے میں مختلف معلومات کی جانکاری دی۔ میں نے مودی کے بارے میں دیگر ذرائع سے بھی جانکاری حاصل کی۔ اس کا خلاصہ ہے کہ مودی جھوٹا، دھوکہ باز، فریبی، فرقہ پرست، اندھی مذہبی عقیدت سے متاثر شخص ہے۔ وہ ایسا نارمل انسان نہیں، جس کا گھر بار ہوتا ہے، جس پر ماں باپ اور بیوی بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، جسے سماج کے مسائل کا احساس ہوتا ہے، جس کا عمل قوم کے حق میں فائدہ مند ہوتا ہے۔ براہ کرم! آنجہانی اٹل بہاری واجپائی، اے پی جے عبدالکلام مرحوم کی مثال نہ لیں۔ ایسے غیرشادی شدہ اور بھی کئی مل جائیں گے مگر وہ بچپن سے مودی جیسے نہیں تھے، نا ہی اُن کی زندگی کا ٹریک ریکارڈ مودی جیسا رہا۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم کی تو فیملی والوں نے شادی بھی کی، لیکن وہ دلہن جشودا بین کو چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ آج تک دلہن سے ملے نہیں۔ مگر فریبی پن دیکھئے کہ مودی کھلے عام انتخابی پرچہ نامزدگی میں لکھتے ہیں کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کی بیوی کا نام جشودا بین ہے۔ کیا یہ نارمل شخص کا طرز عمل ہوسکتا ہے؟
اتنی زیادہ بُری خصلتیں یکجا !
حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بُری اور منفی خصلتیں کس طرح ایک شخص میں یکجا ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ بعض غیرمعمولی مہارت کی حامل شخصیتوں کے جسمانی اعضاء کا بیمہ کرا لیا جاتا ہے کہ جب وہ فوت ہوجائیں تو اُس عضو پر ریسرچ کی جائے گی تاکہ انسانوں کو کچھ تو پتہ چلے کہ قدرت کی طرف سے اُس شخصیت کو کیا مخصوص صلاحیت حاصل تھی؟ مودی کے دل و دماغ پر بھی ریسرچ کرنا پڑے گا کہ کس طرح ایک شخص صرف منفی باتیں سوچ سکتا ہے اور انسانیت کیلئے نقصان دہ کام کرسکتا ہے؟
نسلی امتیاز پر مبنی حکمرانی
جنوبی افریقا میں 1960ء کے دہے میں نسلی امتیاز پر مبنی حکمرانی یا Apartheid شروع ہوگئی تھی۔ جمہوریت اور نسل پرستی سے آزادی کیلئے لڑنے والے جہدکار نیلسن منڈیا کو گوری چمڑی کے جنوبی افریقی حکمرانوں نے جیل میں ڈال دیا تھا۔ آخرکار اقوام متحدہ (یو این) کو جنوبی افریقا کے حالات پر توجہ دینا پڑا۔ اور بڑی عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لے کر یو این نے جنوبی افریقا میں مداخلت کی۔ مگر گوری نسل کی حکمرانی کو ختم کرنے طویل جدوجہد کرنا پڑا۔ آخرکار 1990ء میں منڈیلا کو جیل سے رہائی ملی۔ وہ سیاسی پارٹی ’افریکن نیشنل کانگریس‘ سے وابستہ ہوئے اور 1994ء سے 1999ء تک صدر جنوبی افریقا رہے۔
مودی کو ہٹانے یو این کی مداخلت درکار
جنوبی افریقا اور موجودہ ہندوستان میں فرق اتنا ہے کہ اب یہاں فرقہ پرستی اور ہندوتوا پر مبنی حکمرانی چل رہی ہے، گوری اور کالی چمڑی کا معاملہ نہیں ہے۔ اس لئے مودی حکومت کو ہٹانے میں بہت زیادہ عرصہ درکار نہیں ہونا چاہئے۔ پہلے ہی کئی بین الاقوامی تنظیموں نے مودی حکومت کے خلاف رپورٹ دے رکھی ہے۔ ہندوستانی اقلیتوں کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔ نت نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر مودی حکومت کام کررہی ہے حالانکہ ہندوستان کے دستور میں ایسی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے یو این کو ہندوستان میں مداخلت کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ ویسے بھی چند ماہ قبل تعصب پر مبنی سی اے اے (شہریت ترمیمی بل) کے خلاف اقوام متحدہ کی تنظیم سپریم کورٹ آف انڈیا سے باقاعدہ رجوع ہوچکی ہے۔ اس طرح یو این کی مداخلت کی پہل ہوچکی۔ اب عالمی نگرانکار ادارہ کو مودی کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کی سعی کرنا چاہئے۔
اختراعی حکومت ِ ہند پر غور کریں
مودی کے علاوہ امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ سے ہٹ کر لوک سبھا میں اکثریت کی حامل بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) سے کوئی بھی وزیراعظم بن جائے، میرے خیال میں موجودہ خراب حالت میں کچھ تو سدھار آئے گا۔ میری تجویز ہے کہ دستور میں ضروری ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی پارٹی یا کسی بھی شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے ماہرانہ صلاحیت کے حامل فرد کو وزارتی عہدہ دیا جائے اور اسے لوک سبھا یا راجیہ سبھا کا رکن منتخب کرایا جائے۔ امریکا میں ایسا صدیوں سے ہورہا ہے۔ تلنگانہ کی تشکیل کیلئے کانگریس اور بی جے پی پارلیمنٹ میں اتفاق کرسکتے ہیں حالانکہ متحدہ آندھرا پردیش کو تقسیم کرنے میں کوئی قومی مفاد نہیں تھا، تو قومی مفاد کی خاطر دستور میں ترمیم کیلئے پارٹیاں اتفاق رائے کیوں نہیں کرسکتیں؟
کورونا وائرس اور جینیات
چند دہے قبل تک ہم ہندوستانی لوگ جراثیم، موسمی اثر جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ اُن کی جگہ اب وائرس، وائرل ایفکٹ عام ہوگئے ہیں۔ جراثیم یا وائرس کا جینیات (Genetics) یا علم توالد و تناسل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ خالق کائنات نے دنیا کے خطہ خطہ میں علحدہ رنگ و نسل کے انسان پیدا کئے ہیں۔ یورپی لوگوں کا جو جین (gene) ہو، وہ ہندوستانی افراد سے میل نہیں کھاتا۔ اسی طرح یکساں براعظم ایشیا (براعظموں کی جغرافیائی تقسیم انسانوں نے کی ہے) میں شامل ہونے کے باوجود چین، کوریا، جاپان وغیرہ کے باشندوں کی جینیات برصغیر ہند، پاکستان، بنگلہ دیش والوں سے مختلف ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کا مہلک اثر جس طرح چین، اٹلی، امریکہ وغیرہ میں دیکھنے میں آیا، ویسا کبھی بھی ہندوستان، افریقی ملکوں میں نہیں ہوسکتا۔ کئی بیماریاں ہیں جو ہندوستانیوں کو ہوتی ہیں لیکن یورپ، امریکہ وغیرہ میں نہیں پائی جاتیں۔ مجھے یہ جانکاری پیش کرنے میں تجربہ کار اور امریکہ میں برسرکار ہندوستانی ڈاکٹر اور بعض دیگر ماہرین جیسے مائیکروبائیولوجسٹ وغیرہ سے مدد ملی ہے۔ جینیات کی فنی معلومات میرے مقابل متعلقہ ماہرین بہتر طور پر سمجھا سکیں گے۔ تاہم، ایک نکتہ مجھے اچھی طرح سمجھ آگیا ہے کہ کورونا وائرس 60 سال قبل دریافت وائرس فیملی کا تسلسل ہے۔ یہ فیملی کی ساتویں نئی شکل ہے مگر کم از کم ہندوستان کیلئے ہرگز اُتنی نقصان دہ نہیں، جتنی حکومتوں کی جانب سے باور کرائی جارہی ہے۔ عالمی وبا کو بھی ہماری حکومتیں اپنا اُلو سیدھا کرنے میں استعمال کررہی ہیں!
مودی حکومت کا خواب غفلت
ہندوستان میں اس کا پہلا کیس کیرالا میں جنوری کے اواخر میں درج کیا گیا۔ ووہان سے کیرالا تک کی مدت کے دوران کورونا وائرس چین سے نکل متعدد ملکوں میں حقیقی معنوں میں قہر برپا کرتا رہا۔ مودی حکومت خواب غفلت میں رہی۔ ایک مرتبہ جاگی، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کااستقبال کیا، پھر سوگئی۔ دہلی میں فسادات ہوتے رہے۔ جون 2019ء سے مسلسل سرگرم مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ایسے غائب ہوئے جیسے وہ اِس دنیا میں نہیں۔ یکایک 19 مارچ کو وزیراعظم مودی جاگے اور اتوار 22 مارچ کو ایک روزہ ’جنتا کرفیو‘ کے اہتمام کا اعلان کیا۔ اور 22 مارچ سے ہی ملک میں انٹرنیشنل فلائٹس کی آمد پر غیرمعینہ مدت کیلئے پابندی عائد کردی۔ دو روز بعد 24 مارچ کو رات 8 بجے قوم کو چار گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے 25 مارچ سے 21 روزہ ملک گیر ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کردیا۔ یعنی سوائے ضروری خدمات اور لازمی خرید و فروخت کے علاوہ عوام و خواص کو ملک بھر میں نقل و حرکت کی کوئی اجازت نہ ہوگی۔
وزیراعظم مودی کے تماشے!
جنتا کرفیو کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف طبی لڑائی میں مصروف پورے عملہ سے اظہار یگانگت کے طور پر شام میں ٹھیک 5 بجے پانچ منٹ کیلئے تالی بجائیں، گھنٹی بجائیں ۔ لوگوں نے تالی، گھنٹی کے علاوہ تھالیاں بھی بجا کر بلاوجہ شور مچایا، حتیٰ کہ بعض لوگوں نے گھروں سے باہر نکل کر ناچتے گاتے جشن کا ماحول بنایا۔ وزیراعظم مودی کو اتنے پر اطمینان نہ ہوا۔ انھوں نے قوم سے اپیل کی کہ اتوار 5 اپریل کو رات ٹھیک 9 بجے نو منٹ کیلئے سارے ملک میں برقی روشنی بند کرکے دِیا اور موم بتی جلائیں، ٹارچ لائٹ یا موبائل ٹارچ کو روشن کریں۔ بھلا یہ سب چیزوں کا کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے لڑنے کا کیا تعلق۔ ہاں، دِیا جلانے کا ہندو تہوار نوراتری سے ضرور تعلق ہے۔ وزیراعظم مودی نے عوام سے روبرو ہونے کا ہر موقع فضول باتوں کی نذر کیا ہے۔ ان کو کچھ احساس نہیں کہ کوئی واجبی مہلت دیئے بغیر لاک ڈاؤن لاگو کردینے سے کروڑہا مزدوروں، غریبوں، مختلف نوعیت سے پریشان حال لوگوں کا کیا حال ہورہا ہے؟ عام زندگی پر کیا اثر پڑرہا ہے۔ بے شمار لوگ نفسیاتی بیمار ہورہے ہیں، حتیٰ کہ کئی افراد نے خودکشی تک کرلی ہے۔ میرے ایک بہی خواہ نے مثالی تجویز پیش کی ہے کہ اب سے ہر امیر شخص ہر روز کم از کم ایک غریب کو تین وقت کھانا کھلانے کا ذمہ داری لے۔ یا اُس کی واجبی ضرورت کی تکمیل کا ذمہ حاصل کرلے۔
پولیٹیکل فراڈ ۔ ایک مثال کا حوالہ
انٹرنٹ فراڈ میں اَنجان اور اَن چاہے ای میل بھی وصول ہوتے ہیں۔ ان میں چند الفاظ کی حقیقت کے سوا سب کچھ جھوٹ اور دھوکہ دہی کی نیت سے لکھا مواد ہوتا ہے۔ ایسے ای میل میں پیشکش ہوتی ہے کہ کئی ملین پاؤنڈ یا ڈالر کسی افریقی ملک (اکثر و بیشتر) کے بینک میں محفوظ ہیں، جن کی ملکیت حاصل ہونے کی دعوے داری پیش کرتے ہوئے رقم کو منتقل کرنے میں مدد دینے پر خاصا حصہ ملے گا۔ جو لوگ انٹرنٹ یا ای میل کے معاملے میں نئے ہوتے ہیں یا پھر پختہ عمر کے نہیں ہوتے، وہ اکثر ایسے فراڈ ای میل آفرز کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ای مراسلت شروع کردیتے ہیں اور نتیجتاً وقت اور پیسہ کی کم یا زیادہ بربادی کے بعد انھیں پتہ چلتا ہے کہ ان کو دھوکہ دیا گیا! میں تقریباً تین دہے قبل کم عمری میں ایسے ای میل پر چکمہ کھانے سے محفوظ رہا تھا۔ مجھے اور میرے دوست کو ایک بھلے مانس نے بروقت متنبہ کیا اور ہماری کوئی رقم دھوکہ کا شکار نہیں ہوئی۔ تب سائبر کرائم، انڈیا کیلئے نئی بات تھی، اس لئے قوانین اور سائبر پولیس کا وجود بھی کچھ ٹھوس نہ تھا۔ زمانہ کچھ اس طرح ترقی کرتا گیا کہ آج جرائم کے عام واقعات کے مقابل سائبر کرائم کئی گنا زیادہ ہونے لگا ہے۔ اسی کی مناسبت سے قوانین بن رہے ہیں اور سائبر پولیس نیز سائبر سکیورٹی وغیرہ کا بھی اچھا خاصا عمل ہوگیا ہے۔
سائبر کرائم کے بارے میں چند حقائق سے واقف کرانے کی وجہ اس کرائم یعنی ’’سائبر فراڈ‘‘ کی ’’پولیٹیکل فراڈ‘‘ سے بہت زیادہ مماثلت ہے۔ یہ ’’سیاسی دھوکہ دہی‘‘ زائد از تین دہوں سے ہندوستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، جس کا ایک اہم کردار نریندر مودی اکٹوبر 2001ء تک پوشیدہ رہ کر اپنا کام کرتا رہا، اور تب سے کھلے عام کروڑہا ہندوستانیوں کو بے وقوف بناتا جارہا ہے!
[email protected]