کورونا ویکسین حلال یا حرام؟

   

Ferty9 Clinic

علم نہیں تھا اتنی جلدی ختم فسانے ہوجائیں گے
تم بیگانے بن جاؤ گے ہم بیگانے ہوجائیں گے


کورونا وائرس کے خاتمہ اور بچاؤ کے لیے تیار کی جارہی ویکسین کے بارے میں مسلم دنیا تشویش کا شکار ہے ۔ ویکسین کی تیاری میں سور کی چربی کے استعمال کو لے کر یہ خبر سامنے آئی ہے کہ بعض کمپنیوں نے ویکسین کی تیاری میں بُرے جانور کے بعض اعضاء اور اشیاء کا استعمال کیا ہے ۔ اس پر مسلم دنیا خاص کر انڈونیشیا میں توجہ دی جارہی ہے کہ آیا اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں ۔ اس سلسلہ میں علمائے کرام کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے کہ آیا وہ کورونا وائرس کی ویکسین کے استعمال کو اسلامی شریعت کے تحت قبول کریں یا نہ کریں ۔ جکارتہ میں انڈونیشیائی علماء کونسل نے اس تعلق سے جو موقف اختیار کیا ہے اس پر ماباقی عالم اسلام کے علماء کی کیا رائے ہے ، یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا ۔ بعض کمپنیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جانب سے تیار ہونے والا کورونا ویکسین خنزیر کے مادہ سے پاک ہے ۔ کورونا وائرس کی روک تھام اس سے بچاؤ کے لیے ٹیکہ تیار کرنے میں آج ساری دنیا کے کئی ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ویکسین کے حصول کے لیے بھی اب تک کئی عرب و مسلم ملکوں نے کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں ۔ اس پر توجہ طلب امر یہ ہے کہ آیا جن مسلم ملکوں خاص کر عرب ممالک نے ویکسین کے لیے کمپنیوں سے معاہدے کئے ہیں ان ویکسین کی تیاری کے خنزیر سے پاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے یا نہیں ۔ سعودی عرب کے علماء کرام کو اس سلسلہ میں جلد سے جلد اپنا موقف ظاہر کرنا پڑے گا ۔ کورونا ویکسین کے ذریعہ بعض ممالک نے مسلم دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور اس طرح ایک نازک صورتحال پیدا کردی گئی ہے ۔ کورونا سے متاثرہ ملکوں میں وہ غیر مسلم ممالک بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے خاص کر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بھی کورونا ویکسین کے تعلق سے فکر ہوگی کہ آیا ہندوستان میں دیا جانے والا ویکسین خنزیر کے مادہ سے پاک ہے یا نہیں ۔ ویکسین کا مسئلہ جہاں ایک طرف انسانی حقوق کے تحفظ کا اہم موضوع ہے وہیں ویکسین اس دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ایمان و عقیدہ کو ٹھیس پہونچانے کا بھی معاملہ ہے ۔ اس وقت ساری دنیا کے نازک امور کی نگرانی کرنے والے ادارہ اقوام متحدہ کے رول پر مسلم دنیا کی توجہ جاری ہے ۔ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے جن اصولوں اور ضوابط کو تیار کر کے انہیں ساری دنیا میں نافذ کیا ہے وہیں مسلم دنیا کے امور اور وہاں بسنے والے انسانوں کے تعلق سے اس کا معاملہ مختلف ہے ۔ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق پر خاص توجہ دی ہے اس نے 10 دسمبر 1948 کو اضافی حقوق کی قرار داد منظور کی تھی جس میں دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تعین کیا گیا تھا ۔ اسے کورونا وائرس نے انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو ہی درہم برہم کردیا ہے تو اقوام متحدہ کو اس وائرس اور ویکسین کے تعلق سے مسلم دنیا کی تشویش دور کرنے میں اہم رول ادا کرنا چاہئے اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بنیادی ضرورتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں نے اگر انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر کے صرف دنیا میں ویکسین کے پھیلاؤ اور منافع حاصل کرنے کی غرض سے ویکسین کی تیاری کی ہے تو پھر یہ انسانی حقوق کو سنگین طور پر نظر انداز کردینے کے مترادف ہے ۔ ویکسین کو مسلمانوں کے لیے جائز یا ناجائز بنائے جانے کا مسئلہ جتنا نازک ہے وہیں یہ ویکسین انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی بھی ہے ۔ جہاں تک ویکسین کی تیاری میں بعض کمپنیوں کی جانب سے خنزیر کے استعمال کا سوال ہے ایسی کمپنیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ان کی جانچ ہونی چاہئے اور ویکسین کے نمونے حاصل کر کے اس پر لیبارٹری ٹسٹ کروایا جانا چاہئے ۔ مسلم دنیا کو بھی ویکسین کی تیاری کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ اگر خود مسلم دنیا نے اپنے طور پر ویکسین کو فروغ دیا تو یہ سارے مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہوگا ۔ سعودی عرب اور انڈونیشیا یا ملائیشیا کو اس سلسلہ میں پہل کرنی چاہئے ۔ اب سعودی عرب پر ساری مسلم دنیا کی توجہ مرکوز ہے ۔ کیوں کہ سعودی عرب نے کئی شعبوں میں ترقی کی ہے اور اس پر روپیہ خرچ کیا ہے تو کورونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین کی تیاری کے لیے بھی اسے آگے آنا ہوگا ۔ ویسے سعودی عرب اور ملائیشیا میں قائم فارما کمپنیوں نے از خود ویکسین تیار کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اسے سعودی عرب اور دیگر متمول مسلم ممالک کی حکومتوں کو یکجا ہو کر شراکت داری کے ساتھ خنزیر کے مادہ سے پاک ویکسین کی تیاری شروع کرتے ہیں تو یہ ساری مسلم دنیا کے لیے راحت کی بات ہوگی جن کمپنیوں کے تعلق سے شبہ کیا جارہا ہے کہ ان کمپنیوں نے ویکسین کی تیاری میں خنزیر کے مادہ کا استعمال کیا ہے تو ایسی کمپنیوں کے ویکسین کی لیبارٹری جانچ کے لیے بھی مسلم حکمرانوں کو فوری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ویکسین کے حلال یا حرام ہونے سے متعلق پیدا شدہ تشویش دور ہوسکے ۔۔