حکومت تلنگانہ کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سرکاری دواخانوں میں ایک طرح کی گہما گہمی اور نراج کی کیفیت پیدا ہونے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مزید ہزاروں مریضوں کا علاج کرنے کے موقف میں ہے ۔ سرکاری دواخانوں میں بستروں ‘ ادویات اور دوسری سہولیات وغیرہ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن عوام کا جو موقف ہے وہ اس کے برخلاف ہے ۔ اس صورتحال میں حکومت نے خانگی لیابس اور دواخانوںمیں کورونا کے معائنوں اور علاج کیلئے اجازت دیدی ہے ۔ اس کیلئے حکومت کی جانب سے قیمتوں اور فیس کا تعین بھی کیا گیا ہے لیکن سرکاری دواخانے اس قیمت کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہا جاسکتا کہ دواخانوں میں باضابطہ معلنہ طور پر کورونا کا علاج شروع کیا گیا ہے یا نہیں لیکن کورونا علامات اور پھر ان کے علاج کے نام پر دواخانوں کی جانب سے مریضوں اور ان کے رشتہ داروں سے لاکھوں روپئے وصول کئے جا رہے ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے سرکاری طور پر لیابس کی فیس اور علاج کے خرچ کا تعین کرکے اس کی تشہیر تو کردی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس خرچ پر دواخانوں سے عمل کروانے میں ناکام رہی ہے ۔ دواخانے سرکاری خرچ کو قبول کرنے تیار نہیںہیں اور وہ بھاری رقومات کے بل مریضوں اور ان کے رشتہ داروں سے وصول کر رہے ہیں۔ حکومت نے علاج کی تفصیل اور خرچ کی فہرست دواخانوں میں چسپاں کرنے کی بھی ہدایت دی تھی لیکن اس پر بھی عمل آوری نہیں کی گئی ۔ جب سرکاری طور پر مقررہ خرچ کی بات کی جائے تو دواخانوں میں کورونا کے علاج ہی سے انکار کیا جا رہا ہے اور انہیں سرکاری دواخانوں کو بھیجنے کا انتباہ دیا جا رہا ہے ۔ مریض اور ان کے رشتہ دار ایک طرح سے بلیک میل کی کیفیت کا شکار ہیں۔ حکومت نے خرچ کا تعین تو کردیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ دواخانوں کو اس ہدایت پر عمل کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دواخانے ہنوز من مانی رقومات حاصل کر رہے ہیں اور جو لوگ بھاری ادائیگی نہ کرسکیں ان کے علاج سے گریز کیا جا رہا ہے ۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ حالانکہ لاک ڈاون عملا ختم ہوچکا ہے لیکن لوگ اب بھی ایک طرح سے بے روزگار ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی کٹوتی ہو رہی ہے ۔ خانگی شعبہ کے ملازمین کی تنخواہیں بھی کٹوتی کا شکار ہیں۔ چھوٹے موٹے تاجروں کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ تجارتی سرگرمیاں ایک طرح سے ٹھپ ہیں۔ بازاروں میں کاروبار نہیںہے ۔ رقمی لین دین بڑی حد تک کم ہوگیا ہے ۔ بحیثیت مجموعی حکومت کو موصول ہونے والے ٹیکس کی آمدنی بھی بہت زیادہ گھٹ گئی ہے ۔ا سی سے عوام کی جیبوں کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی بیمار دواخانہ تک پہونچتا ہے تو پھر اس کو درپیش ہونے والی مشکلات کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے ۔ خانگی دواخانوں میں اپنے تیار کردہ پیاکیجس کے نام پر بھاری بل وصول کرنے کی شکایت عام ہوتی جا رہی ہے ۔ جو پیاکیج طئے پاتا ہے اس کے علاوہ بھی ہزاروں روپئے مختلف ٹسٹوں اور معائنوں کے نام پر ہڑپ لئے جاتے ہیں۔ یہ ٹسٹ بھی عین موقع پر بتائے جاتے ہیں اور مریض کے رشتہ داروں کو خوفزدہ کرتے ہوئے ٹسٹ کروانے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ ریاستی حکومت کو اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں اور انہیں مزید خوفزدہ کرتے ہوئے لوٹا جا رہا ہے ۔
حکومت کو محض ایک اجلاس منعقد کرکے یا پھر سرکاری سطح پر اخراجات کا تعین کرکے خاموش نہیں ہوجانا چاہئے ۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دواخانوں کو اپنی شرحوں پر علاج کیلئے ہدایت دے ۔ جو دواخانے ان کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف کارروائی کی جائے بلکہ انہیں مہربند کیا جائے ۔ جو ٹسٹ اور معائنے کروائے جارہے ہیں ان کی تحقیقات کی جائیں کیونکہ معائنوں اور دواخانوں و ڈاکٹروں کے ساز باز کے الزامات عام ہیں اور یہ محض الزامات ہی نہیں ہوسکتے ۔ عوامی صحت کیلئے پہلے تو حکومت کو خود سرکاری دواخانوں میں اور سرکاری خرچ پر علاج کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اگر خانگی دواخانوں میں علاج لازمی ہی ہوجائے تو حکومت کو اپنے تعین کردہ خرچ پر اس کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ دواخانوں کی منظم لوٹ مار کا سلسلہ روکتے ہوئے عوام کو راحت پہونچائی جانی چاہئے ۔
