اس وقت ساری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے، اس وائرس کے پھیلائو کے اسباب کیا ہیںاس بارے میں متضاد باتیں وائرل ہورہی ہیں ، ایک رائے یہ ہے کہ یہ دو ترقی یافتہ ملکوں (امریکہ ، چین) کے درمیان پوشیدہ معاشی جنگ ہے ،امریکہ ہو کہ چین یہ نہیں چاہتے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھے ،یہ جنگ دراصل انا کی جنگ ہے ، جوفرعونیت کے سایہ میں پھلتی پھولتی ہے ،ترقی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی جدوجہد مذموم نہیں ہے لیکن اس میدان میں دوسرے کو مات دے کر آگے جانے کی فکر ایک مہلک مرض ہے جو ان کے ساتھ دنیا کے اور ممالک کو بھی تباہی کے دہانے پرپہنچاسکتاہے ، کورونا وائرس ہی کی طرح بلکہ اس سے زیادہ اس وقت فرعونی انانیت کے وائرس سے نبردآزما ہونے کی شدید ضرورت ہے ، کورونا وائرس دیر سویر ختم ہوسکتا ہے اور انسانی سماج کو اس سے راحت مل سکتی ہے بشرطیکہ سارے انسان کائنات کے فطری نظام میں مداخلت کی روش ترک کردیں ،اور خالق فطرت کے منشاء کے مطابق نظام ِ کائنات سے چھیڑ چھاڑ سے بچیں ،مسلمانوں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے اس پابندی کے ساتھ مزید اسلام کےرہنمایانہ اصول کے خلاف کوئی کام نہ کریں، حدود اللہ کی رعایت رکھیں، اس سے سرموانحراف نہ کریں، حقوق اللہ و حقوق العباد کو ہر آن پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی کا سفر طئے کریں ،لیکن جہاں تک فرعونی انانیت کی بات ہے وہ ایک ایسا وائرس ہے جس سے شائد و بائد ہی چھٹکارہ مل سکے ،انسانیت کو درپیش موجودہ چیلنجس اسی فرعوانی انانیت کی پیداوار ہیں، موجودہ عالمی وملکی احوال اسی ظالمانہ روش و غیر انسانی سونچ کا نتیجہ ہیں ،فرعون نما انسانوں اور حکمرانوں کو بہر صورت اپنے خالق و مالک سے ڈرنا چاہئے ،مظلوموں کی آہیںراست اللہ سبحانہ و تعالی ٰ کے عرش سے ٹکراتی ہیں ، اللہ سبحانہ کی گرفت جب سخت ہوجا تی ہے تو موجودہ دور کے فراعنہ کا وہی حشر ہوتا ہے جو اپنے وقت کے فرعون کا ہوا تھا، ان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ سبحانہ کی قدرت آن کی آن میں کایا پلٹ سکتی ہے اور ان کی ایسی پکڑ ہوسکتی ہے کہ بڑے سے بڑے فرعون کی عقل ٹھکانے آجائے۔اللہ سبحانہ کی مہلت جب ختم ہوجاتی ہے تو نمرود کی بادشاہت کو بھی اس کی قدرت ایک حقیر مخلوق مچھر کے آگے بے بس ہونے پر مجبور کردیتی ہے، اس وقت ایٹمی طاقتوں کی مالک حکومتیں کرونا وائرس کے آگے بے بس ومجبورہوچکی ہیں ۔ فَاعْتَبِـرُوْا يَآ اُولِى الْاَبْصَارِ۔ کورونا وائرس کی وباءبھی اللہ سبحانہ کی گرفت کی ایک وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ یہ وباترقی یافتہ ملک چین کے ایک صوبہ ووہان (Wuhan) سے نکلی ہے اور آہستہ آہستہ اس کا پھیلائو بڑھتا جارہا ہے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ حرام جانوروں کے گوشت کا استعمال اس کی ایک وجہ ہے ،چنانچہ اہلِ چین ایسے چرند ،پرندحشرات الارض بکثرت برسوں سے بطور غذا استعمال کررہے ہیںجن کو خالق فطرت نے حرام کیا ہے ،
اسلام دین فطرت بھی ہے اور دین رحمت بھی جو بھی اس کے سایہ رحمت میں پناہ حاصل کرلیں وہ ویسے ہی بہت سے مصائب و آلام سے محفوظ ہوجاتے ہیں ، فطرت سلیمہ مسخ نہ ہوگئی ہوتو حرام اشیا ء کے استعمال سے انسانی فطرت خود ہی اِبا( ناپسند ) کرتی ہے ، درحقیقت حرام اشیاء گویاایک زہرقاتل ہیں، جس سے جسمانی صحت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ روح کی صحت بہت زیادہ بگڑجاتی ہے ، خدا بے خوف ترقی یافتہ سماج نے نہ صرف حرام کو اپنے لئے حلال کرلیا ہے بلکہ برائینڈیڈ فوڈ کے خوشنما لیبل سے پورےانسانی سماج کوحرام کے دلدل میں ڈھکیل دیا ہے،کیا مسلم کیا غیر مسلم سبھی ذوق و شوق سے اس کے استعمال کے عادی ہوتے جارہے ہیں اس وقت جسمانی نشوونما میں حلال کے بجائے حرام غذائی اشیاء کا بڑا دخل محسوس کیا جارہاہے ،تحقیق یہ ہے کہ ان میںبڑے پیمانے پر حرام اشیاء بالخصوص خنزیر کے اجزاء شامل کئے جارہے ہیں،اسلام دشمن طاقتیں اس میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہیں،مسلمان غیر شعوری طورپر لقمہ حرام کے مرتکب ہوتے جارہے ہیں، جسمانی و روحانی نقصان سے بچائو کی اہم ترین تدبیر حلال اشیاء کا استعمال ہے ،حرام غذائی اشیاء کے ساتھ سماج میں کسب حلال سے زیادہ کسب حرام فروغ پارہا ہے ، رشوت ، سود،غصب ، کاروبار و تجارت کے خوشنما عنوان سے دھوکہ دینے اوردوسروں کا مال ہڑپ لینےکاچلن عام ہوگیا ہے ، بعض مسلم اصحاب نے بھی راتوں رات دولت مند بن جانے کی ناجائز تمنا کی تکمیل کیلئے اس نسخہ کو اپنالیا ہے ، افسوس اس بات کا ہے کہ مذہبی امور جیسے عمرہ اور حج وغیرہ جیسی عبادات کا نام لے کر کم خرچ میں عمرہ اور حج کروانے کا لالچ دے کر اس کی تڑپ و تمنا رکھنے والے غریب مسلمانوں کو لوٹا جارہا ہے ، جائز راہ سے تجارت و کاروبار کرکے حلال منافع دینے کے خوش کن اعلان کے ساتھ غریب سماج پرڈاکہ ڈالا جارہا ہے ،ا س غیر انسانی و غیر اخلاقی صورتحال کے ساتھ کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وبائوں اور بلائوں کے بجائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہونگی؟اللہ سبحانہ وتعالیٰ امت مسلمہ کوٹھنڈے دل سے اصلاح حال کے جذبہ سے اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ جہاں تک غیراسلامی سماج کی بات ہے ترقی یافتہ دنیا نے اسلام کے فطری و سادہ احکام کا خوب مذاق اڑایا ہے اور ساری دنیا میں اس پر پابندی عائد کرنے کی شیطانی کوشش کی ہے، لیکن وہی دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس وقت اسلام کا نام لئے بغیر ایک پابند زندگی گزارنے پر عمل پیرا ہوگئی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کورونا وائر س اور اس جیسے وبائی امراض اور مصائب و آلام کے عمومی پھیلائو کی حقیقی وجہ خالق فطرت کے منشاء کے خلاف زندگی گزارنا اور اس کے فطری احکام سے بغاوت کرناہے،اس رخ سے جائزہ لیا جائے تو انسانیت کا ایک بہت بڑا طبقہ اس جرم کا مرتکب ہے ، پیغام ربانی کا انکار کرنے والوں سے کیا گلہ، دل و جان سے اس پر ایمان رکھنے والےمعاشرہ کا ایک بڑا حصہ اسلام مخالف سرگرمیوں میں اسلام دشمن طاقتوں سے پیچھے نہیں ہے ، یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ مسلم سماج کا بیشتر حصہ بھی خدا بے خوفی وآخرت فراموشی کی مسموم فضاء میں سانس لے رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس جیسی وبا ء سےساری دنیا پریشان ہے ،کتاب و سنت کے آثار و قرائن اس کی تائید کرتے ہیں ۔اللہ سبحانہ کو اس دنیا میں کفر و شرک کے بعد سب سے زیادہ ناپسندیدہ شیٔ ’’ ظلم ‘‘ہے اور اس وقت دنیا میں ظلم عام ہے ، کیا مسلم کیا غیر مسلم سبھی نےظلم کو اپنی ترقی کا زینہ سمجھ لیا ہے ، عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو افغانستان ،عراق ،شام ، فلسطین ،ایغور چینی وروہنگیائی مسلمانوں اور خود ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ، حالیہ کشمیر و دہلی میںدرندگی مچانےکی ظالمانہ خونچکاں داستانیں خون کے آنسو رُلارہی ہیں اور انسانیت کاسر شرم سے جُھک گیا ہے ، اللہ سبحانہ کے غضب کو دعوت دینے کےلئے کیا یہ کافی نہیں ہے؟یہ وہ حقیقی اسباب ہیں جو کوروناوائرس جیسی آفات سماوی کی وجہ بن سکتی ہیں، جہاں تک مادی اسباب کی بات ہے ،اسلام ان کی حمایت کرتا ہے ، ماہر اطباء نے اس مرض سے خود محفوظ رہنے اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کیلئے چند ہدایات جاری کی ہیں ،جو اسباب کے درجہ کی ہیں جیسے ہاتھ دھونا ، پانی سے غرارہ کرنا جس سے حلق تک کا حصہ تر رہے ،ناک کے نتھنو ں میں پانی چڑھانا اور ناک کے اندرونی حصہ کی صفائی کرنا ،چہرہ اور ہاتھ پیر کے کھلے حصوں کو دھونا ، جسمانی پاکی و صفائی کے ساتھ گھریلو حال اور ماحول کو اور ہو سکے تو گھر سے باہر کے ماحول کو صاف و ستھرا رکھنے کی کوشش کرنا ، جہاں تک ان جیسی احتیاطی تدابیر کی بات ہے تو خالق کائنات نے زائداز چودہ سو سال سے قبل جو شریعت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ساری انسانیت کوعطا فرمائی ہیں ، اس میں یہ ساری ہدایات پہلے ہی سے موجود ہیں، مسلمان نماز پنجگانہ و جمعہ وغیرہ کی ادائیگی کیلئے وضو کے پابند ہیں اور وضو میں وہ سارے اعضاءدھوئے جاتے ہیں جن کی موجودہ اطبا ءہدایت دے رہے ہیں ،صحت نماز کیلئے بدن کی طہارت و پاکی کے ساتھ لباس کا اور نماز ادا کرنے کی جگہ کا پاک و صاف ہونا شرط ہے ، اسلامی احکام کی رو سے جن امور سے غسل فرض ہوجاتا ہے غسل کئے بغیر اسلامی عبادات جیسے نماز ادا کرنے ، قرآن مجید کو چھونےیا قرآن پاک کی چھوکر یا زبانی تلاوت کرنےاو ر اس حالت میں مساجد میں داخل ہونے کی اسلام اجازت نہیں دیتا، جمعہ کی جماعت میں حاضری کے موقع پر غسل کرلینا افضل عمل ہے ، احادیث پاک میں اس کی بڑی ترغیب ملتی ہے ،قرآن پاک میں ہے کہ اللہ سبحانہ تعالی نظافت و طہارت کا اہتمام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ( التوبہ؍۱۰۸ ) سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں ملت اسلامیہ ہی کے لئے نہیں بلکہ ساری انسانیت کیلئے رہنمایانہ ہدایات دی ہیںجو ساری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں،سائنسی اور جدید طبی تحقیقات جن کی نافعیت کو آج تسلیم کررہی ہیںقربان جایئے سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسوں پہلے انسانیت کیلئے ان کے نفع بخش ہونے کی وجہ ان پر عمل کرنے کی ہدایات دی ہیں ،مزید اس مرض سے بچائو کیلئے میل ملاپ کم کرنے غیر ضروری ملاقاتوں سے گریز کرنے اور ملاقات ضروری ہو تو فاصلہ بنائے رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے ، انسانو ں کا اجتماع بھی اس مرض کو بڑھاوادینے میں اپنا رول ادا کرسکتا ہے اس سے بھی بچنا چاہئے ، موجودہ آزمائشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تدبیر کے درجہ میں ماہر اطباء کی تحقیقات کی روشنی میں علماء و مشائخ اسلام مسلمانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ مساجد میں اذان ضرور دی جائے کہ یہ اسلام کا شعار ہے،البتہ اپنے گھروں میں بیوی ،بچوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کو ترجیح دیں،ان شاء اللہ ،اللہ سبحانہ ان کو باجماعت نماز اداکرنے کا ثواب عطا فرمائیں گے ، خاص طور پر ضعیفوں ، کمزوروں اور بیماروں کو باہر نکلنے اور مساجد میں آنے سے سخت احتیاط برتنی چاہئے ، کیونکہ قوتِ مدافعت میں کمی کی وجہ وہ بہت جلد متاثر ہوسکتے ہیںیا اپنی بیماری سے دوسروں کو متاثر کرسکتے ہیں، شریعت مطہرہ نے ترک جماعت کے جو اعذار بیان کئے ہیں یہ وباءبھی ان ہی میں شامل ہے،چھوٹے بچوں کو بھی مساجد میں نہ لایا جائے اور نوجوان بھی گھروں ہی میں باجماعت نمازپڑھنے کا نظم بنالیں،ائمۂ کرام وموذنین ذوی الاحترام اور ان کے ساتھ چند صحت مند و تندرست نوجوان مساجد میں جماعت سے ادا کرلیںاور بھی امور ہیں جو اسباب کے درجہ میں ہیں ان کو ضرور اختیارکیا جاناچاہئے لیکن اس بات کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ آفات و مصائب بلائوںاور وبائوں سے بچائو کی مؤثر ترین تدبیر اللہ سبحانہ و تعالی ٰ کو راضی رکھنے کیلئے سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا ،پچھلی زندگی کے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہانا اورآئندہ مرضیات رب کے مطابق زندگی گزارنے کاعزم و ارادہ ہے، اس کے بغیر ظاہری احتیاطی تدابیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتیں۔