گجرات ‘ برج حادثہ

   

اوراق منتشر ہیں کتابِ حیات کے
ایسی ہوا چلی کہ فسانے بکھر گئے

گجرات میںموربی ندی پر بنے کیبل برج کے حادثہ میںتقریبا دیڑھ سو افراد اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ ایک بڑا انسانی سانحہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک لمحے میںدیڑھ سو جانیں تلف ہوگئیں۔ اس حادثے کے نتیجہ میں گجرات ماڈل حکمرانی کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا ہے اور سارے ملک نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح سے گجرات میںحکومت چلائی جا رہی ہے اور کس طرح سے انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا تھا ۔ موربی ندی پر جو کیبل برج منہدم ہوا وہ حکومت کی بد انتظامی یا بے حسی کا نتیجہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ 140 سال قدیم سامراجی دور کا یہ برج کئی مہینوں سے مرمت کے نام پر بند کردیا گیا تھا ۔ ایک ایسی کمپنی کو اس برج کی مرمت اور اسے قابل استعمال بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی جس کو اس طرح کے کاموں کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا ۔ جس کمپنی کو اس برج کی مرمت کی ذمہ داری دی گئی تھی اس کا کام الیکٹرانک اشیا اور گھڑی وغیرہ بنانے کا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت نے اس کیبل برج کی مرمت کا ٹھیکہ دیا تو کس بنیاد پر ایسی کمپنی کو دیا گیا جو اس کام سے واقف ہی نہیںہے اور اس شعبہ سے ہی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں یہ اندیشے تقویت پاتے ہیں کہ محض اقربا پروری یا کمیشن کی وجہ سے ایسی کمپنی کو ٹھیکہ دیدیا گیا جس کو اس طرح کے کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ جس کمپنی کو حکومت نے کنٹراکٹ دیا اس نے اپنا کمیشن رکھتے ہوئے ایک ذیلی کمپنی کو یہ کام سونپ دیا ۔ جس ذیلی کمپنی کو یہ کنٹراکٹ دیا گیا اس کے تعلق سے بھی کسی کو یہ پتہ نہیں کہ اس نے کتنے کام کئے تھے اور کس طرح کے کاموں کا اسے تجربہ ہے ۔ یہ سارا کچھ محض تعلقات کی بنیاد پر کیا گیا اور کمیشن حاصل کرتے ہوئے کام دوسروں کو منتقل کردیا گیا ۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جس کے نتیجہ میں کام ٹھیک طرح سے انجام نہیں دیا گیا اور صرف کام چلاؤ طریقہ کار اختیار کیا گیا ۔ اسی کے نتیجہ میں اس قدر زیادہ جانی نقصان ہوا ہے اور جو لوگ وہاں تفریح کی غرض سے جمع ہوئے تھے وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ آج جہاں تک گجرات حکومت کا سوال ہے وہ اس پر کوئی بھی وضاحت پیش کرنے یا جواب دینے سے قاصر ہے ۔
کچھ سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کمپنی نے برج کو عوام کیلئے دوبارہ کھولنے سے پہلے اس کا فٹنس سرٹیفیکٹ بھی پیش نہیں کیا اور نہ ہی کیبل برج کی مرمت کا کام ٹھیک طرح سے کیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خانگی ہاتھوں میں یہ کام سونپتے ہوئے حکومت اورمتعلقہ سرکاری عہدیداروں نے کس طرح سے غفلت برتی ہے ۔ جب کمنی نے فٹنس سرٹیفیکٹ ہی نہیں دیا تو پھر کس بنیاد پر اس برج کو عوام کیلئے کھولنے کی اجازت دی گئی ۔ حکومت یہ جواب دیتے ہوئے خود بری الذمہ نہیںہوسکتی کہ حکومت کو اس کا علم نہیں تھا ۔ برج کو عوام کیلئے کھولنے کا فیصلہ خانگی افراد بالکل ہی نہیں کرسکتے ۔ سرکاری عہدیداروں اور محکمہ کا یہ کام تھا کہ اس کا مکمل جائزہ لیتے ۔ کمپنی سے فٹنس سرٹیفیکٹ حاصل کرتے ۔ کاموں کی تکمیل کے بعد ان کا معائنہ کرتے ۔ تمام طرح سے اطمینان کرنے کے بعد ہی اسے عوام کیلئے کھولنے کی اجازت دی جاتی ۔ یہ اجازت صرف سرکاری عہدیدار اور حکومت ہی دے سکتی تھی اور خانگی افراد پر اس کی ذمہ داری عائد کرنا دراصل خود کو بچانے کی کوشش ہے ۔ یہی وہ سرکاری عہدیدار ہوسکتے ہیں جنہوں نے خانگی کنٹراکٹرس سے اپنی کمیشن حاصل کرتے ہوئے غفلت برتی جس کے نتیجہ میںدیڑھ سو کے قریب لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور درجنوںدوسرے زخمی ہوگئے ہیں۔ اگریہی حکمرانی کا گجرات ماڈل ہے تو یہ قدم قدم پر کرپشن سے بھرا ہوا ماڈل ہے ۔
حادثہ ہونے کے دو دن بعد بھی حکومت گجرات کی جانب سے ابھی تک کسی ذمہ دار کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے ۔ دکھاوے کیلئے کچھ گرفتاریاں کی گئی ہیں اور کچھ اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن جو ایف آئی آر کی گئی ہے اس میں کسی کا نام تک شامل نہیں ہے ۔ سرکاری عہدیداروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیںکی گئی ہے ۔ کسی کے تعلق سے تحقیقات کا اعلان تک نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی سے جواب طلب کیا جا رہا ہے ۔ عوام کی جانوںسے اس طرح کا کھلواڑ انتہائی افسوسناک ہے اور اس طرح لا پرواہی اور تغافل سے کام کرنا حکومتوں کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ حکومت گجرات کی ذمہ داری ہے کہ سارے معاملے کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائے اور ان سرکاری عہدیداروں کے خلاف بھی کارروائی ہو جو اس کے ذمہ دار ہیں ۔