گجرات فساد ملزمین بھی بری

   

ملک میں وقت کا پہئیہ ایسا لگتا ہے کہ الٹا گھوم رہا ہے جہاں خاطیوں کو سزائیں نہیں دی جا رہی ہیں اور بے گناہوں کو ضمانتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔ آج گجرات کی ایک عدالت نے 2002 کے نروڈا گام فسادات کے مقدمہ میں سابق ریاستی وزیر مایا کوڈنانی ‘ بجرنگ دل لیڈر بابو بجرنگی اور دوسرے ملزمین کو با عزت بری کردیا ہے ۔ اس سے قبل اسی گجرات میں بلقیس بانو عصمت ریزی اور قتل عام کے مقدمہ کے سزا یافتہ مجرمین کو ان کی سزاء پوری ہونے سے قبل ہی حکومت کی سفارش پر رہاء کردیا گیا تھا ۔ گجرات کے جو فسادات رہے وہ آج بھی ملک کی تاریخ کے انتہائی بدترین فسادات کہے جاتے ہیں۔ خود بی جے پی کے سینئر لیڈر اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ان فسادات پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا ۔ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’ اب میں باہر کس منہ سے جاؤں ‘ ۔ گجرات میں منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت جو فسادات کروائے گئے تھے اس میں کئی بڑے اور نامی گرامی قائدین ملزم رہے ہیں۔ ان میں اس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی اور اس وقت کے گجرات کے وزیر امیت شاہ بھی شامل تھے ۔ امیت شاہ اور نریندر مودی کوپہلے ہی عدالتوں سے براء ت مل گئی تھی ۔ تاہم آج جن ملزمین کو عدالت سے براء ت ملی ہے ان میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے ویڈیو کیمروں پر اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے قتل عام کیا ہے ۔ انہوں نے حاملہ خاتون کو پیٹ میں چھرا گھونپ کر ہلاک کردیا تھا ۔ پیٹ میں پلنے والے بچے کو تلوار کی نوک پر نیچے پھینکا تھا ۔ ان سب ملزمین کے خلاف ثبوت و شواہد خود میڈیا میں موجود تھے اور بابو بجرنگی نے تو خود کیمروں پر اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے اس سارے فساد میں کتنا سرگرم رول ادا کیا تھا ۔ اس سب کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں استغاثہ ملزمین کو سزائیں دلانے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں موثر پیروی نہیں کی جا رہی ہے ۔ جو پیروی کی جا رہی ہے اس میں عمدا جھول چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ان ملزمین کو عدالتوں سے رہائی مل سکے ۔ یہ استغاثہ کی ناکامی بھی ہے اور اسے استغاثہ کی عمدا کوشش بھی کہا جاسکتا ہے ۔
گجرات پولیس اور محکمہ قانون کی ناکامی کے نتیجہ میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہونے کے باوجود ملزمین کو عدالتوں سے رہائی ملتی جا رہی ہے ۔ گجرات فسادات میں اعلی سطح کی سازش کے شبہات کا اظہار کرنے اور حقائق کو منظر عام پر لانے کی جدوجہد کرنے پر سابق آئی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ اب بھی جیل میں قید ہیں۔ انہیں مسلسل قید میں رکھتے ہوئے ضمانت سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے ۔ اس طرح سے گجرات انتظامیہ اور متعلقہ و مجاز ارباب کی جانب سے انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ انصاف رسانی کے عمل کو عمدا کئی طرح کی رکاوٹوں کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ متاثرین کو انصاف دلانے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی بجائے ملزمین کو قانون کے شکنجہ سے بچانے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ ملزمین کے خلاف عدالتوں میں موثر ڈھنگ سے پیروی کرنے اور ان کے گناہوں کو ثابت کرنے کی بجائے ثبوت و شواہد موجود ہونے کے باوجود استغاثہ کی ناکامی کئی شبہات اور سوالات کو جنم دیتی ہے ۔ گجرات حکومت اور متعلقہ حکام کو اس تعلق سے وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے موقف پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انصاف رسانی کے عمل کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ انصاف رسانی کا عمل اگر متاثرین کو راحت پہونچانے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اس سے انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے جو دعوے کئے جاتے ہیں وہ مشکوک ہوجاتے ہیں۔
جو عہدیدار اس مقدمہ میں استغاثہ کے کیس کو عدالتوں میں پیش کرنے کے ذمہ دار تھے ان کے موقف اور ان کی پیروی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ یہ پتہ چلایا جانا چاہئے کہ آیا انہوں نے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کئے ہیں یا انہوں نے ملزمین کو بچانے پر توجہ دی ہے ؟ ۔ عوام کے ذہنوں میں انصاف رسانی کے عمل کو مشکوک ہونے سے بچانے کیلئے ایسے عہدیداروں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے جو ثبوت و شواہد رکھنے کے باوجود عدالتوں کو ان کے جرم کے تعلق سے مطمئن نہیں کرپائے اور متاثرین کو انصاف نہیں دلا پائے ۔ اس طرح استغاثہ کی ناکامیاں متاثرین کے زخموں کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔