عمر بھر تجھ سے ملاقات نہیں ہو پائی
زندگی ہم تری تصویر بناتے کیسے
ہندوستان جیسے جمہوری اور وفاقی طرز حکمرانی والے ملک میں ہر فریق کی ذمہ داری اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور تمام فریقین کو ایک دوسرے کا نہ صرف احترام کرنا ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے حدود کو تسلیم کرنا بھی پڑتا ہے ۔ جہاں مرکزی حکومت کو سارے ملک پر حکمرانی کا اختیار حاصل رہتا ہے اور وہ حق اسے عوام دیتے ہیں اسی طرح ریاستوں میں بھی عوام اپنے لئے حکومت منتخب کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی جہاں بالادستی ہوتی ہے وہیں ریاستی حکومتوں کے وجود اور ان کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ریاستی سطح پر عوام کی منتخب کردہ حکومت کو بھی وہی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو مرکز کو ملک گیر سطح پر حاصل ہوتے ہیں۔ کچھ امور ہیں جن میں ضرور فرق موجود ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاستی حدود میں مرکز کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ریاستیں مرکزی حکومت کو چیلنج کرسکتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے وفاقی طرز حکمرانی اور عوام کے جمہوری حقوق کو مستحکم کرنا ہر دو فریق کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ تاہم گذشتہ چند برسوں میں ملک میں حالات میں ایسی تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں جن کا پہلے کبھی تذکرہ بھی نہیں دیکھا گیا ۔ حالیہ عرصہ میں گورنرس کے ریاستی حکومتوں کے ساتھ ٹکراؤ کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں اس طرح کی صورتحال پیدا نہ ہوئی ہو لیکن موجودہ حالات میں یہ واقعات بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ پہلے ریاستی حکومتیں یہ الزام عائد کیا کرتی تھیں کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ان سے انصاف نہیں کیا جا رہا ہے ۔ تاہم اب باضابطہ ٹکراؤ والی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے اور ریاستی گورنرس عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں پر بھی اثر انداز ہونے اور ان کے کام کاج کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن ریاستوں میں یہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے ان کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت کی ایماء پر گورنرس ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں مداخلت کر رہے ہیں اور ان میں ایک طرح سے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مرکز یا گورنرس ہمیشہ ہی اس طرح کے الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔ جو صورتحال اب پیدا ہو رہی ہے وہ ملک یا ہمارے طرز حکمرانی کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔
دہلی ‘ تلنگانہ ‘ کیرالا ‘ ٹاملناڈو اور دوسری ریاستوں میں گورنرس کا حکومتوں کے ساتھ ٹکراؤ ہو رہا ہے ۔ اب ٹاملناڈو کے گورنر نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے از خود ہی کام کرنے شروع کردئے ہیں تاہم انہیں مرکزی وزارت داخلہ کی مداخلت کے بعد اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑگئے ہیں۔ مرکز کی مداخلت کی وجہ سے گورنر اور حکومت کے مابین قانونی ٹکراؤ کی کیفیت کو ٹالا جاسکا ہے ۔ گورنر نے ایک ریاستی وزیر کو کابینہ سے برطرف کردیا تھا ۔ ریاستی وزیر کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے ایک مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ حراست میں ہیں۔ چند دن کے اندر ہی گورنر بے چین ہوگئے اور انہوں نے اس وزیر کو ریاستی کابینہ یا حکومت کی سفارش کے بغیر ہی از خود انہیں کابینہ سے علیحدہ کردیا ۔ چیف منسٹر ٹاملناڈو مسٹر ایم کے اسٹالن نے فوری اور شدید رد عمل میں اعلان کردیا کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے ۔ مرکزی وزارت داخلہ نے فوری مداخلت کرتے ہوئے شائد گورنر کے فیصلے کے خلاف رائے دی جس کے بعد گورنر نے اپنے فیصلے کو معرض التواء میں رکھنے کا اعلان کردیا ۔ ہندوستان میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ کابینہ میں کسی وزیر کی شمولیت یا اس کا اخراج محض ریاستی کابینہ اور چیف منسٹر کا اختیار تمیزی ہے ۔ ان کی سفارش کے بغیر گورنر اپنے طور پر ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ اس مسلمہ اصول اور سابقہ مثالوں کے باوجود گورنر ٹاملناڈو نے جلد بازی میں یہ فیصلہ کردیا تاہم انہیں اپنے فیصلے کو معرض التواء میں رکھنے کا اعلان کرنا پڑا ۔
نہ صرف یہ روایت رہی ہے بلکہ عدالتوں کے کچھ فیصلے بھی موجود ہیں جن میں یہ واضح ہے کہ گورنرس کسی وزیر کو ریاستی کابینہ یا چیف منسٹر کی سفارش کے بغیر نہ خارج کرسکتے ہیں اور نہ شامل کرسکتے ہیں۔ ان سب کے باوجود اگر گورنر ٹاملناڈو نے جلد بازی میں کوئی فیصلہ کیا تھا تو پھر اس کی وجوہات اور عوامل کی بھی صراحت کرنی چاہئے تھی ۔ گورنرس کے اس طرح کے اقدام سے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے مابین حالات میں کشیدگی کم نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔ وفاقی طرز حکمرانی میں یہ روایات انتہائی نامناسب ہیں۔ گورنرس ہوں یا ریاستی حکومتیں ہوں یا پھر مرکزی حکومتیں ہوں سبھی کو دستور اور قانون کے تحت اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملک کے نظام حکومت کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔
منی پور ‘ کشیدگی کب ختم ہوگی؟
شمال مشرقی ریاست منی پور میں صورتحال قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کشیدگی میں اضافہ کے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں اور چند دن تک اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسلسل اقدامات کا دعوی کیا جا رہا ہے ۔ کئی کوششیں ہو بھی رہی ہیں لیکن حالات کو قابو میں کرنے میں اب تک کامیابی نہیں ملی ہے ۔ حالات کی خرابی اور کشیدگی جتنی طویل ہوگی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششیں اتنی ہی مشکل ہوجائیں گی ۔ یہ مسئلہ چاہے لا اینڈ آرڈر کا ہو یا پھر اس کی کچھ اور بھی وجوہات ہوں ان کا جائزہ لینے اور ان کی بنیاد تک پہونچنے کی دونوں ہی حکومتوں کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک تنازعہ اور کشیدگی کی وجہ کو سمجھا نہیں جائیگا اور اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک حالات بہتر نہیں بنائے جاسکتے ۔ صرف دعوے کرتے ہوئے دکھاوے کے اقدامات سے حالات بہتر نہیں ہوسکتے ۔جس طرح سے کل جماعتی اجلاس منعقد کیا گیا تھا اسی طرح سے تمام گوشوں کی رائے بھی لی جانی چاہئے اور جامع انداز میں تشدد پر قابو پانے کے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں۔