پریاگ راج۔واراناسی میں میں متنازعہ جگہ پر ایک مندر کی موجودگی اور مسجدکی تعمیر کے لئے اسے مسمار کرنے کا ذکر مذہبی او رتاریخ کی کتابوں میحں موجود ہے‘ ہندو فریق کے وکیل نے منگل کے روز آلہ اباد ہائی کورٹ میں دعوی کیاہے۔
گیان واپی مسجد کاشی وشواناتھ معاملے میں ہندو فریق کی نمائندگی کرنے والے وکیل ہری شنکر جین نے استدلال پیش کیاکہ اس طرح کی کتابوں کو ہندوستانی شواہد ایکٹ کے تحت شواہد کے طور پر لیاجانا چاہئے۔
انجمن انتظامیہ مسجد اور گیان واپی مسجد انتظامی کمیٹی کی جانب سے دائر کردہ نظر ثانی کی درخواست پر آلہ اباد ہائی کورٹ سنوائی کررہی تھی جس میں عدالت کے اس حکم کو چیالنج کیاگیا ہے جو پانچ ہندو خواتین کی جانب سے شری رنگا گوری اور بیرونی دیوار پر واقع دیگر دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے کی اجازت پر مشتمل درخواست کی برقراری پر ان کے اعتراضات کومسترد کردیاتھا۔
چونکہ عدالت کی جانب سے ہائی کورٹ نے تاریخ مقرر کردی تھی اس لئے منگل کے روز اس معاملے پر دوبارہ سنوائی شروع ہوئی۔ تاہم جزوی سنوائی کے بعدجسٹس جے جے منیر نے معاملے پر 7ڈسمبر کے روز مزید سنوائی کی ہدایت دی ہے۔
واراناسی کے ضلع جج نے ستمبر12کے روز سی پی سی کے رول 11برائے آرڈر 7کے تحت دائردرخواست کو مسترد کردیاتھا۔
مسجد انتظامی کمیٹی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے وارناسی ضلع جج نے اس بات کا مشاہدہ کیاتھا کہ درخواست (پانچ ہندو خواتین)کو مقامات عبادت (خصوصی قانون)ایکٹ1991‘ وقف ایکٹ1995اور یوپی شری کاشی وشواناتھ مندر ایکٹ‘ کے تحت روکا نہیں گیا ہے‘جس کا بات مسجد کمیٹی کے دعوی پیش کیاہے۔
موجودہ نظر ثانی کی درخواست انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ میں دائر کی ہے جس میں 12ستمبرکے حکم کو اس بنیاد پر چیالنج کیاگیاہے کہ وراناسی کی عدالت کے سامنے سوٹ کو عبادت گاہوں کے ایکٹ1991کے تحت روک دیاگیاہے‘ جس میں 15اگست 1947کوموجودہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کے کہاگیاہے کہ کوئی مقدمہ دائر نہیں کیاجاسکتا ہے۔