روش کمار
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر کانگریس نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ، کانگریس ترجمان پون کھیرا کے مطابق ان اسمبلی انتخابات میں ہیرا پھیری کی گئی ہے اس لئے ہم ان نتائج کو قبول نہیں کرسکتے۔ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش اور دوسرے قائدین نے بھی الیکشن کمیشن کو بھی اڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ بہرحال ہریانہ میں جو کچھ ہوا وہ پہلے بھی کئی ریاستوں میں ہوچکا ہے اسے لیکر نئی نئی تھیوریاں پیش کی جانے لگی ہیں ۔ کہیں بتایا جارہا ہے کہ باغی امیدواروں کی وجہ سے کانگریس ہار گئی تو کہیں بتایا جارہا ہے کہ بی جے پی نے کانگریس مخالف ووٹ کو متحد کرلیا کہیں بتایا جارہا ہے کہ بھوپندر سنگھ ہوڈا اپنے چیف منسٹر بننے کے چکر میں کمل ناتھ ثابت ہوگئے تو کہیں یہ بھی لکھا جارہا ہیکہ آر ایس ایس نے 16 ہزار اجلاس منعقد کر کے بی جے پی کو جیت دلائی ہے تو کانگریس کا اندرون خلفشار اسے لے ڈوبا ۔ تھیوری کا ایک طرح سے بھنڈارہ کھل گیا ہے ۔ آیئے جو چاہئے لے جائے ۔ ہم نے ہریانہ الیکشن سے متعلق جو بھی تھیوری سامنے آئی ہے یاد رہی ہے اس پر اچھی طرح غور کیا ہے لیکن افسوس ابھی تک خاموش خاتون رائے دہندوں والی تھیوری دکھائی نہیں دی ہے کئی بار جب جیت کی دوسری وجوہات جب بھروسے کے نہیں لگتے تو خاموش خاتون رائے دہندوں کی تھیوری تبصرہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی کافی مدد کرتی ہے ۔ اولا پر شائع ان خبروں کو دیکھ کر بالکل نہ سوچیں کہ میں نے اپنا روپ بدل دیا ہے اور کنال کا مرا کے اسکوٹر پر سوار ہو کر ویڈیو بتارہا ہوں ۔ اولا اسکوٹر پر خبریں تو شائع ہورہی ہیں میں نے یہاں اولا اور اوبر کا انتخاب ایک مبصر کی شکل میں کیاہے انتخابی نتائج کے پہلے اور بعد کے جائزوں کو میں اولا ، اوبر تجربہ کہتا ہوں یعنی انتخابات سے پہلے اولا کے اسکوٹر س اُدھر گئے اور انتخابات کے بعد اوبر کے اسکوٹر سے اِدھر آگئے ۔ اسکوٹر کی ملکیت آپ کی نہیں ہے اسی طرح ان تبصروں اور بیانات کا کوئی مالک نہیں کچھ بھی بولتے رہئے تو ہم ’’ اولاد اوبر سیاسی تجزیہ کے دور میں ہے ایک ویڈیو میں کچھ اور اگلے ویڈیو میں کچھ اور انتخابات سے پہلے جو لوگ آپ کو کامیابی کی وجہ سمجھا رہے تھے نتائج آنے کے بعد کہنے لگے کہ انہیں اب سمجھ نہیںآرہا ہے انہیں بھی ہمیں سنسنا چاہئے سمجھنے تو نہیں آئے گا مگر انہیں صدموں سے اُبھرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔
پرتاب بھانو مہتا نے انڈین ایکسپریس میں لکھا ہیکہ ہریانہ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ تو ماننا پڑے گا کہ 4 جون کو لوک سبھا نتائج کے بعد بی جے پی کے زوال کو جس طرح سے بڑھا چڑھا کر دیکھا جارہا تھا وہ صحیح نہیں ہے ۔ یہ نتیجہ ہندوستانی سیاست کا رخ پھر سے بدلتا ہے اور پریشان دکھائی دینے لگے مودی کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے ۔ ایسا کہنے والے کہ بی جے پی کا زوال شروع ہوگیا ہے اور ان کی بنیاد کیا تھی انہیں پرتاب بانو مہتا اتنی سنجیدگی سے کیوں لے رہے ہیں ؟ شائد اخبار اور نیوز چیانل والے سنجیدگی سے لیتے ہیں اس لئے کہنا پڑرہا ہے ۔ پرتاب بھانو مہتا کی یہ بات بالکل ٹھیک ہیکہ آج کی سیاست میں بڑے سماجی دائرہ والے گٹھ جوڑ کو بنانامشکل ہوگیا ہے ۔ ذات پات ان دونوں ہی پہچان کے دائروں میں جتنا انہیں سمجھا گیا ہے چیزیں اس سے کہیں زیادہ اُلجھی ہوئی ہیں لیکن یہ بات تو کسی بھی انتخابات سے پہلے اور بعد میں لاگو ہوتی ہے ۔ بہرحال ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہریانہ میں بی جے پی کی جیت کو لیکر کیا کہا جارہا ہے اور کانگریس کی شکست کو لیکر 2024 لوک سبھا انتخابات کے نتائج آئے تو کہا گیا کہ اس کا آنے والے انتخابات پر اثر پڑے گا دوراس نتائج برآمد ہوں گے یعنی بی جے پی کو 240 نشستوں پر کامیابی ملی تو آگے بھی وہ کمزور ہوتی چلی جائے گی ۔ مودی کے دن ختم ہوگئے اور راہل کے دن شروع ہوگئے ایسا کہنے اور لکھنے والے بہت لوگ تھے جو سنجیدگی سے خود کو سیاسی تجزیہ نگار و تبصرہ نگار کہتے ہیں اور ہمیں بھی اور اگر وہ نہ ہوں تو ٹی وی اسکرین اور ان کی شان خالی ہوجائے ان کے انٹرویوز سے ہی چیانل کی کھڑکیاں بھری رہتی ہیں اور اینکروں کا ٹائم پاس ہوجاتا ہے ۔ آئیڈیا مل جاتا ہے تو ان سب کا آپ کو شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔ اب ہریانہ میں بی جے پی جیت چکی ہے تو کہا یہ جارہا ہیکہ ہریانہ کے انتخابات کا قومی سطح پر اثر ہوگا ۔ ایسا کہنے والے بتا نہیں رہے ہیں کہ جون کے نتائج کا جو اثر بنایا جارہا تھا وہ اثر کہاں اور کیوں کھو گیا ؟ اس کا حساب نہیں دے رہے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی انتخابات کا جو نتیجہ آیا ہے اس کا مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے انتخابات پر اثر پڑے گا ۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے مدھیہ پردیش ، راجھستان اور چھیتس گڑھ میں بی جے پی کو بڑی کامیابیاں ملی کیا اس کا اثر لوک سبھا انتخابات میں دکھائی دیا ۔ اس درمیان سمرتی ایرانی نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا ہے اس ویڈیو میں ایک ہی تصور ہے جس پر سنگھ کی طاقت زندہ باد لکھا گیا اور سنگھ کا دعائیہ گیت ہے ۔ تصویر میں آر ایس ایس کا سیوک سیکل پر جارہا ہے ۔ تصویر کے کونے میں فاتح لکھا ہوا ہے کیا سمرتی ایرانی یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ہریانہ کے انتخابات کی جیت آر ایس ایس کے سیوکوں یا کارکنوں نے دلائی ہے ۔ مودی کی سیاست اور کارکردگی کا کردار نہیں ہے ۔ روڈ شو اور ہائی ٹیک پرفارمنس سے جیت نہیں ملتی ، سیکل پر چلنے والے آر ایس ایس کے کارکن ہی کامیابی دلاتے ہیں اور اب بھی دلاتے رہیں گے ۔ لوگ سبھا انتخابات میں جے پی نڈا نے کہا تھا کہ بی جے پی کو اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔ 22 مئی کو انہوں نے انڈین ایکسپریس کی لیز میتھو کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ شروع میں ہم کو پریشانی ہوگی ہم کمزور ہوں گے تھوڑا کم ہوں گے ، آر ایس ایس کی ضرورت پڑتی تھی آج ہم بڑھ گئے ہیں مضبوط ہیں تو بی جے پی اپنے آپ کو چلاتی ہے ۔ ماہ ستمبر میں آر ایس ایس لیڈر سنیل نامبیکر سے ایک پروگرام میں جے پی نڈا کے اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا تب انہوں نے انڈیا ٹوڈے کے پلیٹ فارم پر اس معاملہ پر بات کرنے سے منع کردیا اور کہا کہ ہم پریوار کے مسئلہ پریوار کی طرح ہی سلجھاتے ہیں ۔ ماہ جولائی میں دی ہندو میں ایک خبر شائع ہوتی ہے جس کے مطابق آر ایس ایس نے بی جے پی سے جواب طلب کیا ہے کہ ارکان خاندان اور رشتہ داروں کو کیوں ٹکٹ دیئے جارہے ہیں مگر اسی میں یہ بھی لکھا ہیکہ آر ایس ایس جیت کو دیکھتے ہوئے ایک استثنی کے طور پر اسے قبول بھی کرے گی ۔ لیکن جب ٹکٹ تقسیم ہوتے ہیں تو خبر شائع ہوتی ہے کہ بی جے پی نے 8 خاندان والوں کو ٹکٹ دیئے ہیں ۔ پارٹی قائدین کی دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں ایک بیوی ہے ۔ انتخابات کے بعد انڈین ایکسپریس میں وکاس پاٹھک کی رپورٹ شائع ہوتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ سیاسی خاندانوں سے جڑے بی جے پی کے 8 امیدواروں میں سے 7 جیت گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کا کبھی کانگریس سے تعلق رہا ہے ایسے میں یہ سمجھنا مشکل ہے آر ایس ایس خاندانی سیاست کی مخالفت کررہی یا خاندانوں سے کامیابی دلانے والے امیدوار تلاش کررہا تھا لیکن خبریں اس طرح سے شائع ہوئی ہیں کئی خبروں کو ایک ساتھ دیکھنے پر تصویر کچھ اور نظر آتی ہے اور وجہ کا ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں چلتا ہے ۔ اگر آر ایس ایس نے کامیابی میں کمال کردیا تو پھر آر ایس ایس نے سائنی حکومت کے 9 وزراء کو کیوں نہیں کامیاب کرواسکی ؟ وہاں آر ایس ایس کیوں ناکام ہوگئی ؟ اس کا جواب کسی بھی تبصرہ اور تجزیہ میں نہیں ملتا ہے ۔ امیت شاہ اور نائب سائنی نے مودی کو جیت کا چہرہ بتایا ہے انہیں ہی کامیابی کا کریڈٹ دیا ہے لیکن ہریانہ کے کئی اخبار جیت کا سہرا نائب سائنی کے سرباندھ رہے ہیں ۔ دی ٹرپیون نے اس جیت کو سائنی کی سنسنی خیز ہیٹ ٹرک لکھا ہے تو ہندی کے کچھ اخبار نائب اور نایاب کو ملا کر چیف منسٹر کو کامیابی کا کریڈٹ دے رہے ہیں ۔ سائنی کی ہی تصویر کو سرخیوں کے ساتھ شائع کررہے ہیں مقامی اخبارات چیف منسٹر کو دیکھ رہے ہیں اور قومی اخبارات وزیراعظم کو دیکھ رہے ہیں ؟ دیکھو بھائی اپنے اپنے حساب سے دیکھو ، ہسار آتے آتے اخبار کی تصویر میں سائنی سے کامیابی حاصل کرنے والے بی جے پی کے ونودار ہسار سے جیتی آزاد امیدوار ساوتری جندل چھائے ہوئے ہیں ۔ صفحہ اول پر لگتا ہے کہ سائنی اور مودی جگہ نہیں پاسکے ۔ بہرحال سوشیل میڈیا اور گودی میڈیا کے چیانلوں پر آر ایس ایس کی واہ واہ ہورہی ہے ۔ بی جے پی کی جیت بھی آر ایس ایس کی ہی جیت ہے اور آر ایس ایس کی محنت والی جیت بھی بی جے پی کیلئے ہی ہوتی ہے ۔ آپ کسی کی تعریف کریں تعریف دونوں کی ہوجاتی ہے یہ کمال ہے ۔ ہمار کہنا ہیکہ آر ایس ایس کی تعریف کو لیکر جو خبریں نتائج آنے کے بعد سے شائع ہونے لگی ہیں کیا جیت کی وجوہات وہی ہیں یا اب ان وجوہات کو گڑھا جارہا ہے ۔ خبریں پہلے کیوں شائع نہیں ہورہی تھیں کہ آر ایس ایس کی وجہ سے بی جے پی ہریانہ میں جیتنے والی ہے ۔ انتخابات سے پہلے جولائی ، اگسٹ کے مہینوں میں کئی جگہوں پر خبریں شائع ہوئی ہیںکہ ہریانہ چناو میں آر ایس ایس مورچہ سنبھال رہا ہے لیکن اس طرح سے بھی نہیں شائع ہوئی ہیں کہ آر ایس ایس نے 16 ہزار اجلاس منعقد کئے ۔ اچانک سے ایسے نمبروں کی برسات کی جانے لگتی ہے ۔ اگر سنگھ 16 ہزار اجلاس کررہا تھا اور میڈیا میں اس کی خبریں انتخابات کے بعد آتی ہیں ہوسکتا ہے مجھے خبریں نہ ملی ہوں لیکن آپ بھی ذرا سرچ کرلیں کہ آر ایس ایس نے جب 5 ہزار اجلاس کئے تھے تب کوئی رپورٹ شائع ہوئی جب 10 ہزار اجلاس کئے تک کوئی رپورٹ شائع ہوئی اور جب 16 ہزار اجلاس ہوئے تب کوئی رپورٹ شائع ہوئی 16100 نہیں 16200 نہیں بلکہ پورے 16000 اجلاس کی خبریں شائع ہوئی ہیں ان اجلاس کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ۔ کانگریس کے لیڈروں کو بھی یہ نظر نہیں آئے ۔