کوثر رشید
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے ، جسے اللہ تبارک و تعالی نے بے شمار خصائل و فضائل کی بناء پر دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں ایک ممتاز اور اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ رمضان المبارک یوں تو سارا مہینہ ہی رحمتوں ، برکتوں اور انوار و تجلیات سمیٹنے کا مہینہ ہے ، مگر اس کے آخری عشرہ کی فضیلت پہلے دو عشروں کے مقابلہ میں اس لئے قدرے زیادہ ہے کہ اس میں ایک طاق رات ایسی آتی ہے ، جس کی رات بھر عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ، جس میں ملائکہ کا زمین پر نزول ہوتا ہے اور جس کی تلاش و جستجو میں آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں قیام کرنے اور ذکر و عبادت میں مشغول رہنے کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ یہی وہ رات ہے جو لیلۃ القدر کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ایسی متبرک اور قدر و منزلت والی رات ہے ، جس کی شان میں اللہ جل شانہ نے قرآن حکیم میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی ہے ، جس کا نام سورۃ القدر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کیا سمجھتے ہیں (کہ) شب قدر کیا ہے ؟ ، شب قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات٭ میں فرشتے اور روح الامین (جبرئیل علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک (سراسر) سلامتی ہے‘‘۔ اس سورہ مبارکہ میں لیلۃ القدر کی چار خصوصیات ذکر کی گئی ہیں (۱) اس رات قرآن نازل ہوا (۲) اس رات فرشتے اترتے ہیں (۳) یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے (۴) اس رات غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک خیر و برکت اور امن و سلامتی کی بارش برستی ہے۔
جمہور علمائے امت کا موقف یہ ہے کہ لیلۃ القدر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ امم سابقہ میں سے یہ شرف کسی کو نہیں ملا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے اس موقف کی تائید ملتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’بلاشبہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے ، سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا‘‘۔
ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے مختلف شخصیات حضرت ایوب ، حضرت زکریا ، حضرت ہزقیل ، حضرت یوشع علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالی کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالی کی نا فرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرام کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔ امام قرطبی لکھتے ہیں کہ اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرمایا ہے اور پھر قراء ت کی ’’اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ‘‘۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ اقدس فرط مسرت سے چمک اٹھا‘‘۔ چنانچہ لیلۃ القدر کی عبادت کو اسی نہیں ، بلکہ ۸۳ سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا گیا۔
شب قدر ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی مستقل تعیین بیان نہیں ہوئی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ‘‘۔ آخری طاق راتوں میں اعتکاف کو سنت قرار دینے کا بنیادی مقصد لیلۃ القدر کی تلاش ہے ، اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کی تلاش کے لئے پورا رمضان اعتکاف فرماتے ، لیکن جب آپ کو شب قدر کی تعیین سے آگاہ فرما دیا گیا تو وصال شریف تک صرف آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے رہے‘‘۔ جمہور علمائے کرام کے نزدیک آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے ، لہذا شب قدر کو رمضان المبارک کی ۲۱ ، ۲۳ ، ۲۵ ، ۲۷ اور ۲۹ ویں راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔
جو خوش نصیب شب قدر کی تمام رات محض اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے لئے ذکر و فکر اور عبادت میں مشغول رہے ، وہ بارگاہ الہی میں بزرگی و عظمت والا شخص قرار پائے گا۔ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا ، جو ہزار ماہ تک عبادت الہی میں مصروف رہتا ، لیکن یہ عظمت و رفعت فقط امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی عطا ہوئی ہے کہ اسے ایک رات کی عبادت و ریاضت سے ہزار ماہ کی عبادت کا شرف حاصل ہو جاتا ہے (شوکانی ، فتح القدیر) گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے تصدق سے امت مسلمہ کو لیلۃ القدر کی اس عظیم نعمت کی صورت میں وہ مقام نصیب ہوا ، جو سابقہ امم میں سے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔
اس رات عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے ، اپنے طبعی ذوق کے ساتھ جس طرح ممکن ہو سکے اللہ تعالی کو یاد کیا جائے اور مناسب یہ ہے کہ رات کے تین حصے کرلئے جائیں۔ ایک حصہ میں نوافل پڑھے جائیں ، دوسرے حصہ میں تلاوقت قرآن حکیم اور تیسرا حصہ استغفار ، درود و سلام ، دعاء و ذکر میں گزارا جائے۔ سورۃ العنکبوت میں ان ہی تین عبادتوں ، نماز ، تلاوت قرآن اور ذکر الہی کو ایک جگہ جمع فرما دیا گیا ہے۔ بعض احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص رمضان المبارک کی تمام راتوں میں مغرب ، عشاء اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرے اسے شب قدر کا کسی قدر حصہ مل جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے سارے رمضان المبارک میں مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت ادا کی ، اس نے شب قدر کا وافر حصہ پالیا‘‘۔
(ابن ماجہ ، کتاب الصیام)