ہندوستان عظیم تباہی کے دھانے پر دختر اسلام کی غیرت ایمانی و مجاہدانہ کردار کو سلام

   

بی بی مسکان خان بنت محمد حسین خان فرقہ پرستی اور زعفرانی دہشت گردی کے خلاف ایک بے باک حق کی آواز بن کر ظاہر ہوئی ہے۔ ان کے مجاہدانہ کردار نے سارے ہندوستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ جب وہ کالج کو اپنی سواری پر پہنچی تو سینکڑوں طلباء پر مشتمل شرپسند جتھے جئے شری رام کی آوازیں بلند کرنے لگے اور ایک خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیئے ۔ ایسے پرخطر ماحول میں تن تنہا یہ مسلمان لڑکی حجاب میں ملبوس ان شرپسندوں کے سامنے بہ آواز بلند نعرۂ تکبیر کی صدائیں بلند کرکے اپنی غیرت ایمانی کی طاقت و قوت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جس کے سامنے زعفرانی دہشت گردوں کی کثیرتعداد مبہوت و مقہور ہوگئی اور تھوڑے وقفے میں یہ اﷲ کی نیک بندی تمام ہندوستان کی خواتین کے لئے جرأت و بے باکی کی عظیم مثال بن گئی ۔
میرے استاد محترم حضرت مفتی محمد ولی اﷲ قادری سابق شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ فرماتے تھے کہ دشمنان دین پر بحث و تحقیق کے بعد یہ بات ظاہر ہوئی کہ اُمت اسلامیہ کی شجاعت و جرأت کی بنیادی وجہہ اس قوم کی مائیں ہیں جو عفت و حیاء ، پاکدامنی و پاکبازی کے عظیم جوہر سے آراستہ ہیں۔ جب تک اس قوم کی مائیں عفت و حیا سے متصف رہیں گی اس قوم سے مقابلہ دشوار ہے ۔ اس بہادر قوم میں بزدلی کے عناصر کو فروغ دینے کے لئے ان کی ماں بہنوں میں بے حیائی و بے حجابی کو عام کرنا ناگزیر ہے ، چنانچہ انھوں نے اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اس دین حنیف کا محافظ ہے ۔ پس کرناٹک کی ایک باحجاب تعلیمیافتہ مسلمان لڑکی نے باطل گروپ کے روبرو نعرۂ تکبیر کی صدائیں بلند کرکے غیرمسلم خواتین خاص طورپر خود کو ماڈرن و مہذب سمجھنے والی خواتین کو بھی انگشت بدنداں چھوڑ دیا ۔ نئی تہذیب و کلچر کے عام چلن کے اس دور میں مسلمان لڑکی کا اسلامی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ماڈرن ایجوکیشن کو جاری رکھنا ، پراعتماد طریقے پر گاڑی کو پارک کرکے مکمل طمانینت کے ساتھ پرجوش انداز میں باطل سے نبردآزما ہونا درحقیقت اسلام کی صنف نازک سے متعلق اعلیٰ تربیت کی غماز ہے کہ مسلمان عورت پردہ میں رہکر بھی اپنے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے میدانِ عمل میں شانہ بہ شانہ مقابلہ کرسکتی ہے ۔ اسلام نے صنف نازک کو یہ خود اعتمادی و بلند حوصلگی آج سے چودہ سو سال پہلے ہی عطا کردی ہے ۔ زمانے قدیم سے دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب و ادیان کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ صنف نازک ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہی ۔ قدیم تہذیبیں صنف نازک کی حقوق تلفی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسی روش پر دیگر مذاہب بھی کاربند رہے جس کے نتیجے میں یہودیت اور عیسائیت کے مختلف ادوار میں حقوق نسوان کی تحریکیں سرگرم ہوتی گئیں اور ان کو دھیرے دھیرے حقوق ملتے رہے ۔ مرد کی برابری اور مساوات کے خیال نے دیگر مذاہب کے اصل ڈھانچے کو درہم برہم کردیا ۔
جدید تہذیب نے عورت کو آزادی و مساوات کے نام پر ایسا آزاد کیا کہ وہ عائلی و خاندانی نظام کے بندھن سے بھی آزاد ہوگئی اور آج مغرب میں لاکھوں خواتین تنہا زندگی گزار رہی ہیں اور فیملی نظام سے محروم ہوگئی ہیں اور مغرب میں خاندانی نظام تقریباً تباہ و برباد ہوگیا ہے ۔ حرام بچوں کی کثرت ہوگئی اور بچے بن باپ کے پرورش پارہے ہیں ۔ ایسے انحطاطی دور میں مسلمان قوم کا عائلی نظام دیگر اقوام کے لئے مثالی ہے ۔ نیز اسلام نے چودہ سو سال قبل اس طریقے سے صنف نازک کو حقو ق و مراعات عطا کی ہیں کہ وہ تاقیامت تغیر و تبدیلی ، کمی و زیادتی کی محتاج نہیں۔
الغرض ہندوستان کے ایک سرکاری کالج کے ذمہ داروں کا مسلمان لڑکیوں کو برقعہ اُتارنے پر مجبور کرنا نیز اس کالج کے غیرمسلم طلباء کا مسلمان طالبات کے خلاف بھگوا رنگ کے کپڑے و پگڑی پہنکر مظاہرے کرنا ہندوستان کے جمہوری نظام و سیکولر اقدار پر کاری ضرب ہے اور ہندوستان کے زوال کا غماز ہے ۔ جاہل و بیروزگار بھگت ہی ہندوستان کی تباہی کے لئے کافی تھے اب طلباء میں یہ جنونی عناصر کا فروغ تمام ہندوستانیوں کے لئے بلا لحاظ مذہب و ملت Wake Up Call ہونا چاہئے ۔ اب بھی تمام ہندوستانی سڑکوں پر آکر اس بھگوا دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کریں گے تو بہت جلد ہندوستان انسانی اقدار سے بے بہرہ ہوجائیگا اور سنبھلنے اور معمول پر آنے کے لئے کئی دہے درکار ہوجائیں گے ۔ بعد میں کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں جہاں بی جے پی حکومت راست ذمہ دار ہے وہیں اپوزیشن کی کمزوری و پراگندی ستم بالائے ستم ہے ۔ خاص طورپر کانگریس پارٹی کی داخلی انتشار نے اپوزیشن کو حد درجہ کمزور کردیا ۔ گرچہ کانگریس پارٹی میں آج بھی قابل لیڈرس کی کمی نہیں ہے لیکن خاندانی موروثی نظام کی رغبت نے کانگریس پارٹی کو غیرمؤثر بنادیا ۔ اگر کانگریس پارٹی خاندانی مفادات سے بالاتر ہوکر سینئر لیڈر کو آگے بڑھائے اور ان کے تجربہ و دوراندیشی سے فائدے اُٹھائے تو مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔