ہندوستان کورونا وائرس سے نمٹنے تیارنہیں ۔کیوں؟

   

محمد ریاض احمد
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جب ظلم و زیادتی بڑھ جاتی ہے قتل و غارت گری اور ناانصافی کا بھیانک کھیل عام ہو جاتا ہے طاقتور کمزور کو اپنا نشانہ بناتے ہیں دولت مند اپنی دولت کے بل بوتے غریبوں کا استحصال کرتے ہیں، خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات اور زنا وباء کی طرح عام ہو جاتا ہے تو قدرت جلال میں آجاتی ہے۔ ظلم و جبر نانصافی و زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اپنی دولت و طاقت کے غرور کی بیماری میں مبتلا بدقماش عناصر کو ان کی حیثیت یاد دلاتی ہے کہ دیکھو تم خاکی ہو اور خاک میں ہی تمہیں جانا ہے۔ گزشتہ کم از کم 30 برسوں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ سامراجی طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کیسی کیسی انسانیت سوز حرکتیں کیں۔ عراق، افغانستان، شام، لبنان، یمن، سوڈان، فلسطین جیسے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ عراق کو تو سامراجی طاقتوں نے نوچ نوچ کر کھایا۔ بابل نینوا کی تہذیب کو تار تار کردیا۔ کئی عراقی شہروں کی شناخت ہی مٹادی۔ ماہرین تعلیم ڈاکٹروں، سائنسدانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ افغانستان میں 19 برسوں تک خون آشامی کی گئی ایک خوشحال ملک کو مفلسی اور تشدد کے دلدل میں ڈھکیل دیا۔ (ہاں یہ اور بات ہے کہ طالبان نے سامراجی طاقتوں کے غرور و تکبر کو بڑی حقارت سے اپنے پیروں تلے کچل دیا) شام میں عوام کا جو قتل عام کیا گیا اس پر بھی سامراجی طاقتوں نے اپنی روٹی سیکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بڑی طاقتوں نے شام کی بری حالت کردی۔ اگر یہ عالمی برادری چاہتی تو شام میں لاکھوں انسانوں کو قتل ہونے سے بچا سکتی تھی لیکن مختلف ملکوں پر اپنے مفادات کی خاطر چڑھائی کرنے والی نام نہاد بڑی طاقتوں نے شام میں قتل و غارت گری کی پوری پوری اجازت دی۔ دنیا نے اُس تین سالہ شامی لڑکے کے ان آخری الفاظ کو بھی نظرانداز کردیا جس نے بستر مرگ پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے کہا تھا ’’میں اپنے رب کو سب کچھ بتادوں گا‘‘ شاید وہ شامی لڑکا اللہ عزوجل کو یہ بتانے کی بات کررہا تھا کہ شام میں بے قصور انسانوں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے۔ بستیوں کو فضائی حملوں کے ذریعہ زمین دوز کیا جارہا ہے اور بلند و بالا عمارتوں کے ملبہ تلے ہزاروں بچے اور ان کے کھلونے بھی دبے ہوئے ہیں۔ دنیا نے یوروپ کے ساحلوں پر پڑی ایسے بے شمار بچوں کی نعشیں بھی دیکھ کر خود کو خواب غفلت کے لبادہ میں چھپا لیا جو اپنے والدین کے ساتھ یوروپی ممالک ہجرت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس سلسلہ میں عالمی برادری شاید ایلان کردی کو نہ بھول پائے۔ ساحل پر پڑی جس کی نعش آج بھی عالمی برداری سے سوال کررہی ہے کہ آخر ان لوگوں نے پناہ گزینوں، مہاجرین کو بچانے کیا اقدامات کئے۔ ساری دنیا نے لبنان جیسے خوشحال ملک کو تباہ ہوتے اور وہاں عزت داروں کی عزتیں اچھالنے، نعشوں کی بے حرمتی اور معصوم بیٹیوں کی عصمتیں لوٹی کئے جانے کے دردناک مناظر بھی دیکھے اور واقعات بھی پڑھے۔ یمن میں جو کچھ ہوا اس پر بھی عالمی برداری نے کوئی حرکت نہیں کی۔ یمنی بچے ایک وقت کے کھانے بلکہ دانے دانے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ان کی تصاویر ہی انسانوں کو رلانے کے لئے کافی ہیں۔ دوسری طرف سوڈان کو جس طرح عالمی دلالوں نے اپنے مفادات کے لئے تقسیم کیا ہزاروں انسانوں کی جانیں تلف کی گئیں اس کا بھی دنیا نے بڑی خاموشی سے تماشہ دیکھا۔ فلسطینیوں کے ساتھ اس کرہ ارض کا ناجائز ملک اسرائیل جو کچھ کررہا ہے اس پر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ برسوں سے اسرائیل نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کردی ہے۔ پچاس کے دہے سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ایک مرحلہ پر دنیا نے ایسا منظر بھی دیکھا ہے جہاں اسرائیل کی دہشت گردی بلکہ اسرائیلیت (دہشت گردی کو ایک اور نام اسرائیلیت دیا جانا چاہئے) کا شکار پھول جیسے بے شمار معصوم شیرخواروں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کی نعشیں رکھنے کے لئے مردہ خانوں میں جب جگہ باقی نہیں رہی تب انہیں ان ریفریجریٹرس اور کولڈ اسٹوریج میں رکھا گیا جہاں انواع و اقسام کے پھول رکھے جاتے تھے تاکہ وہ مرجھانہ جائیں۔ اس طرح کے غمناک مناظر پر بھی عالمی ادارے اور مہذب عالمی برادری ٹھس سے مس نہ ہوئی، تاہم اس قدر ظلم و جبر اور اسرائیلیت کے باوجود قابل تعریف ہیں فلسطینی بچے جوان، بوڑھے اور خواتین کہ ان لوگوں نے دنیا کی نام نہاد بڑی طاقتوں کی سرپرستی کے حامل اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس معاملہ میں فلسطینیوں نے اپنے جان و مال اور آل و اولاد کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اسرائیل ارض مقدس فلسطین کی تاریخی حیثیت مٹانے کے مسلسل اقدامات کررہا ہے اور عالم اسلام بھی مجرمانہ خاموشی و بے حسی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس میں ہمت نہیں کہ ببانگ دہل اسرائیل کی درندگی اور اس کے سرپرستوں کی مکاریوں کو بے نقاب کرے۔

یہ تو فلسطین کا معاملہ رہا۔ مائنمار میں جو کچھ ہوا جس طرح روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ان کے گاوں کے گاوں نذر آتش کئے گئے، کمسن لڑکیوں و خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے۔ (فی الوقت سات لاکھ سے زائد روہنگیائی بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں)۔ مائنمار کے بدھسٹ دہشت گردوں اور فوج کی ان وحشیانہ حرکتوں پر بھی عملی اقدامات کی بجائے دنیا نے صرف اور صرف زبانی ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ تو رہی مائنمار کی بات مصر میں ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا خواب دیکھنے والوں کو کیسے موت کے گھاٹ اتارا گیا کس طرح قانون و انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں کیسے دیانت دار قیادت کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا ان تمام واقعات پر بھی دنیا خاموش رہی۔ دنیا تو خاموش رہ سکتی ہے لیکن قدرت ظلم و جبر پر کبھی خاموش نہیں رہتی اس کے ساتھ جو مکر کرتے ہیں انہیں ان کے اپنے مکر و سازشوں کے پھندوں کا شکار بنا دیتی ہے۔ کبھی سیلاب، کبھی طوفان باد و باراں، کبھی سونامی تو کبھی زلزلوں اور بیماریوں کی شکل میں قدرت اپنا قہر نازل کرتی ہے۔ اب ساری دنیا نے دیکھا کہ قدرت نے کورونا وائرس کی شکل میں قہر نازل کیا ہے۔ سادہ آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے ایک خورد بینی کورونا وائرس کے ذریعہ قدرت نے سب کو بے بس کردیا ہے۔ سوپر پاور کہلانے والے ملکوں میں حشرات الارض کی طرح انسان فوت ہو رہے ہیں۔ ’میں،’ میں‘ کہنے والے حکمرانوں کی عقلیں کام نہیں کررہی ہیں۔ انصاف کا قتل کرنے والے اب انصاف کی باتیں کرنے لگے ہیں لیکن کورونا وائرس اپنی تباہی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو بتادوں کہ یکم دسمبر 2019 میں چین میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی۔ ہاں … چین نے بھی صوبہ ژنجیانگ اور ملک کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کی حد کردی تھی۔ 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو مرکز حراست میں بند کردیا گیا تھا۔ چینی مسلمانوں کو مذہب سے دور کرنے، انہیں زبردستی حرام کام کروائے جارہے تھے۔ ماہ صیام میں روزوں کے اہتمام پر پابندی عائد کی جارہی تھی، لوگوں کو نمازوں سے روکا جارہا تھا، اب حال یہ ہے کہ سارا چین ہی ایک مرکز حراست یعنی DETENTION CENTREمیں تبدیل ہوگیا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبئی کے ووہان شہر سے یہ وائرس کی وباء پھوٹ پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کم از کم 30 ہزار لوگ فوت ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں مسلم خواتین کی بے حرمتی کے واقعات عام ہوگئے تھے جس کا خمیازہ چینی قوم کو کورونا وائرس کی صورت میں پھوٹ پڑی وباء کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ چین میں اموات کی حقیقی تعداد چھپائی جارہی ہے لیکن چینی حکومت کو اندازہ ہوگیا ہیکہ قدرت کے ساتھ بغاوت اور مسلم رعایا پر ظلم و جبر عذاب الٰہی کا باعث بنا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 70 دنوں کے دوران چین اور یوروپی ممالک کے بشمول 202 ملکوں میں کم از کم 6 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور 30 ہزار سے زائد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ متاثرین میں 23,560 کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اس طرح آئندہ چند دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ اب تک جو لوگ متاثر اور فوت ہوئے ہیں اس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یومیہ 8571 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ دنیا میں یومیہ کم از کم 430 افراد کوروناوائرس کا شکار بن کر لقمہ عجل بن رہے ہیں۔

اب یوروپی ممالک بشمول امریکہ، اٹلی، فرانس اور اسپین کے ساتھ ساتھ برطانیہ شدید متاثر ہیں۔ کورونا وائرس نے عالمی معیشت کو بھی تباہی کے دہانے پر لادیا ہے۔ امریکہ جیسے سوپر پاور ملک میں کورونا وائرس کے سامنے تمام عصری وسائل، ٹکنالوجیز، طبی آلات بے بس نظر آرہے ہیں۔ عبرت کا مقام یہ ہے کہ وہاں مصنوعی الہ تنفس (وینٹیلیٹرس) کی قلت پائی جاتی ہے۔ برطانیہ ، فرانس، اٹلی، اسپین اور امریکہ وینٹیلیٹرس کے آرڈرس پر آرڈرس دیئے جارہے ہیں۔ جراثیم کش ادویات کا چھڑکاو کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں اگر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت میں پچھلے 6 برسوں کے دوران جو کچھ بھی ہوا ہے وہ بھی عذاب الہی کو دعوت دینے کے لئے کافی ہے۔ مثال کے طور پر ہجومی تشدد میں 150 سے زائد بے قصور مسلمانوں اور دلتوں کو شہید کیا گیا۔ جن میں حافظ جنید جیسا کمسن حافظ قرآن اور تبریز جیسا ایک ماہ کا دولہا بھی شامل تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اقلیتوں کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ چھ سال کے عرصہ کے دوران انصاف کا جس انداز میں قتل کیا گیا وہ بھی ساری دنیا جانتی ہے۔ اب تو بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ بہرحال جہاں تک کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے مودی حکومت کی تیاریوں کا سوال ہے 30 مارچ کو ہندوستان میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کا پتہ چلتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طرح حکومت کو اس وبا سے نمٹنے کے لئے تیاریاں کرنی چاہئے تھی وہ نہیں کی گئیں۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک وینٹیلیٹرس کی قلت کا شکوہ کررہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں بھی وینٹیلیٹرس کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہندوستان میں اگر کورونا وائرس متاثرین کی شرح موجودہ رفتار سے بڑھتی رہی تو مئی اور جون تک متاثرین کی تعدا 2.2 ملین یعنی 22 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جس کے لئے ایک لاکھ 10 ہزار تا 2 لاکھ 20 ہزار وینیلیٹرس کی ضرورت ہوگی۔ آپ کی اطلاع کے لئے یہ بتادوں کہ ہندوستان میں تقریباً 24 ہزار سرکاری ہاسپٹل ہیں اور ان میں بستروں کی تعداد 7,13,986 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار لوگوں کے لئے صرف 0.55 بستر ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں ہزار بزرگوں کے لئے 5.8 ہاسپٹل بیڈس پائے جاتے ہیں۔ ملک کی 12 ریاستوں بشمول بہار، جھارکھنڈ، گجرات، اترپردیش، آندھرا پردیش، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، ہریانہ، مہاراشٹرا، اڈیشہ اور آسام میں 137 کروڑ آبادی کا 70 فیصد حصہ آباد ہے۔ ان ریاستوں میں ہزار مریضوں کے لئے 0.11 بیڈ پایا جاتا ہے جبکہ مغربی بنگال میں ایک ہزار مریضوں کے لئے 2.25، سکم میں ایک ہزار مریضوں کے لئے 2.24، دہلی میں ایک ہزار مریضوں کے لئے 1.05 بیڈس پائے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ڈاکٹرس کی بھی قلت پائی جاتی ہے۔ 1457 ہندوستانیوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ 2019 کی ایک پارلیمانی رپورٹ میں اس کا انکشاف کیا گیا۔ کورونا وائرس نے تاحال ہمارے ملک میں 800 کے ہندسے کو پار کرلیا ہے اور 20 لوگ فوت ہوچکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے صرف لاک ڈاون کرنے یا تالیاں و برتن بجانے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ مختلف ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ اس کے اثرات 100 ملین ہندوستانیوں پر فوری مرتب ہوسکتے ہیں۔ مودی حکومت نے غریب خواتین کے اکاؤنٹس میں ماہانہ 500 روپے یعنی صرف 7 ڈالر جمع کروانے کا اعلان کیا جبکہ اسے چاہئے تھا کہ وہ اروند کجریوال کی طرح غریبوں کے بینک کھاتوں میں کم از کم 5000 روپے جمع کرواتی۔ ہندوستان میں کورونا وائرس ٹسٹ بھی بہت کم کئے گئے ہیں جبکہ جنوبی کوریا جیسے ملک نے مسلسل ٹسٹوں کا اہتمام کرتے ہوئے کورونا وائرس کے گرفت سے خود کو آزاد کروایا۔
[email protected]