ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں مسلمانوں کا طرز معاشرت

   

اِدھر مشکوک ہے میری صداقت
اُدھر بھی بدگمانی کم نہیں ہے
خدا اور دین سے انسان کا رشتہ بہت قدیم ہے ۔ دنیا کے ہر حصہ اور ہر گوشے میں کسی نہ کسی شکل میں خدا اور مذہب کا تصور رہا ہے ۔ سرزمین ہند کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ شروع ہی سے مختلف مذاہب و ادیان کا گہوارہ رہی ہے ۔ ہندوستان کا سماج ایک تکثیری سماج ہے ۔ ہندوستان کی سیاست سیکولر ہے اور ہندوستانی نظام جمہوری ہے ۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہے ۔ ہندوستان کے بانیوں نے ایک ایسے آئین کی تشکیل کی جس کی اقدار اور روح کو اس کے مقدمہ
(Preamble)
میں بیان کیا گیا ہے :’’ ایک بااقتدار
(Sovereign)
سوشلسٹ ، سیکولر اور جمہوری ریاست جس کے سامنے انصاف ، آزادی ، مساوات اور اخوت جیسے مقاصد کا حصول ہے ۔ ان میں سے ہر مقصد کے حصول کا اپنا ایجنڈا ہے ، ان میں سے بعض مقاصد کا حصول عمل میں آچکا ہے اور بعض پر کام جاری ہے اور درمیان میں مختلف رکاوٹیں اور پیچیدگیاں حائل ہیں ۔ اور ان رکاوٹوں کو ختم کرنے اور آئین کے بنیادی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی اتحاد ناگزیر ہے ‘‘۔ واضح رہے کہ ایک مسلمان کا مخلوط نظام معاشرت میں اپنے دین ، مذہب ، تہذیب اور اقدار پر قائم رہتے ہوئے دیگر برادران وطن کے ساتھ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے اجر و ثواب کا باعث ، قرب خداوندی اور حصول نجات کا ذریعہ ہے ۔
مخفی مبادکہ دین اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید اور تصور آخرت یعنی جوابدہی کے تصور کے ساتھ نیک اعمال کی انجام دہی پر ہے ۔ یہ دین خالق کائنات کا دین ہے ۔ یہ دین انسانیت کی مختلف تہذیبوں اور گروہوں کے درمیان باہمی اتفاق و تعاون اور مفاہمت و ملاپ کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ یہ دین انسانیت کو توہمات کی تاریکیوں اور عقائد باطلہ کے اندھیروں سے نکالکر کھلی فضاء اور روشنی میں لے آتا ہے۔ دین اسلام سمندر جیسی وسعت کا حامل ، انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن اور انسانی زندگی کے مختلف و متنوع پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے ۔ یہ دین انسان کو وسیع النظری سے روشناس کرکے ایک دوسرے کے مسلک، مذہب اور نقطہ نظر کو سمجھنے کی راہ ہموار کرتا ہے جس کے نتیجے میں انسانیت سوز بغض و عناد کا سدباب ہوسکتا ہے اور انسان باہم مل جلکر کام کرسکتے ہیں ۔ دین تعصب و دشمنی کی اجازت نہیں دیتا ۔ اختلاف عقائد کے باوجود باہمی تعاون عمل ہی سے تہذیب و تمدن کا ارتقاء ہوتا ہے ۔
واضح رہے کہ انسانی احترام پر مبنی اسلامی تعلیمات ایسی ہیں کہ اس کو روبہ عمل لاتے ہوئے کسی بھی جمہوری اور غیر اسلامی حکومت میں برادران وطن کے ساتھ خوشگوار تعلقات و مراسم کو برقرا رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا مسلمانوں کے لئے نہایت آسان ہے ۔ قرآن مجید نے ’’امت واحدہ ‘‘ اور اختلاف ادیان سے متعلق حقائق کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا : ’’(ابتداء میں ) سب لوگ ایک ہی امت تھے ۔ (ایک ہی دین پر تھے ۔ پھر ان میں اختلافات رونما ہوئے ) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافی مسائل میں فیصلہ کریں اور اس میں اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی ۔ باوجود اس کے ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں (اور یہ اختلاف) بغض و حسد کی بناء تھا ۔ پھر اللہ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے اختلافی امور میں حق کی ہدایت دی اور اللہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے ۔ (سورۃ البقرہ ۔۲۱۳ )
دین اسلام حق ہے ، حق کی دعوت دینا ، راہ راست کی طرف بلانا اور انسانیت کو آخرت کے دائمی عذاب سے بچانے کی فکر کرنا اہل اسلام کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے لئے پیار و محبت اور حکمت و موعظت کے اسلوب کو اختیار کرنا چاہئیے اور اگر اخلاقی صورت ہو تو نہایت عمدہ پیرایہ میں دفاع کرنا چاہئیے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے اندازمیں کیجئے جو نہایت بہتر ہو ‘‘۔ (سورۃ النحل ۔۱۲۵ ) اسلام قبول کرنے کے لئے کسی کو مجبور کرنے کی قطعاً اجازت نہیں اور سارے لوگ مسلمان ہوجائیں یہ بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے ’’ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے ۔ کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ‘‘ ۔
(سورۃ یونس ۔۹۹ )
عقیدۂ توحید اسلام کا طرہ امتیاز ہے ، خدا کی ذات تو کجا اسماء و صفات اور اختیارات و تصرفات میں بھی کسی کو شریک کرنا ناقابل معافی جرم ہے ۔ اس کے باوصف اگر کوئی معبود ان باطلہ کی پرستش کرتا ہے ، شجر و حجر اور دیوی و دیوتاؤں کو پوجتا ہے تو وہ اس کا اختیاری عمل ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : ’’تمہاری لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے ‘‘۔ (سورۃ الکافرون ۔۶ )
کفر و شرک کرنے والوں سے دنیا میں مواخذہ نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہوں گے ۔ ’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک) اللہ کے سواء پوجتے ہیں ۔ پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے ۔ اس طرح ہم نے ہر فرقہ کے لئے ان کا عمل (ان کی آنکھوں میں) مزین کردیا ہے۔ پھر سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے اور وہ انہیں ان کے اعمال سے متعلق آگاہ فرمادے گا جو وہ کرتے تھے ۔ (سورۃ الانعام ۔۱۰۸ )
اسلام میں نہ معبودان باطلہ کو سخت کہنے کی اجازت ہے اور نہ ان کی پرستش کرنے والے یعنی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ امتیازی یا جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا حکم ہے ۔ ارشاد فرمایا :’’ اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اوران سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو (یاد رکھو) یقیناً اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ‘‘۔ (سورۃ الممتحنہ ۔۸ )
عدل و انصاف ، امانت و صداقت ، انسان دوستی ، احترام آدمیت ، امن و سلامتی عقائد و عبادات کے قطع نظر معاملات ، لین دین ، حسن سلوک ، کاروبار ، بھائی چارہ ، برادرانہ تعلقات ، حسن اخلاق ، تیمارداری ، خیرخواہی ، اچھائی کی تعلیم ، برائی سے اجتناب ، اقرباء پروری اور دیگر اُمور میں مسلم اور غیر مسلم دونوں برابر ہیں اور یہی امور بہترین اور مہذب معاشرہ کی تشکیل کے عناصر ہیں ۔ تعلیمات اسلامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک میں دیگر مذاہب والوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔
ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی تہذیب و تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ عدل و انصاف کی حکمرانی ، قانون کی بالادستی ، ظلم و زیادتی اور فتنہ و شرانگیزی کے سدباب کے لئے سچائی، آزادی ، ترقی اور مشترکہ انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے ۔ ہر دو جانب سے مذہبی جنون ، فرقہ وارانہ تعصب اور معاشرتی فسادات کی بیخ کنی کرنا ناگزیر ہے ۔ کیونکہ شدت پسندی ، فرقہ واریت ، مذہبی منافرت ہمارے اور ہمارے ملک کی ترقی میں نیز ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ضروری ہے ۔