یو پی ‘ بلڈوزر اور عدالتیں

   

وقت نازک ہے اپنی حکومت پر
موج حائل ہے اور ہوا نا ساز
بی جے پی کے اقتدار میں اترپردیش ایک ایسی ریاست بنتی جا رہی ہے جسے حالیہ برسوں میں ایک سے زائد مرتبہ عدالتوں کی برہمی اور سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ عدالتوں کی جانب سے ناراضگی کے اظہار اور مبینہ برہمی کے باوجود یو پی حکومت اپنی روش میں تبدیلی لانے بھی تیار نہیں ہے اور من مانی انداز میںفیصلے کرتے ہوئے ان پر عمل آوری کی جا رہی ہے ۔ حالیہ مہینوں میں ایک سے زائد مواقع پر ریاستی حکومت کو بلڈوزر کارروائیوں پر عدالتوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے اکثر و بیشتر بلڈوزر کارروائی کی جاتی ہے اور خاص طور ایک مخصوص طبقہ یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ان کے مکانات اور دوکانات کو زمیںبوس کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ جوں ہی کہیں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اترپردیش کی حکومت اس کا استعمال اقلیتوں کے مکانات یا دوکانات کو منہدم کرنے کیلئے استعمال کرنے پر اتر آتی ہے اور کئی مواقع پر ایسے منصوبوںکو عملی جامہ بھی پہنایا جاچکا ہے ۔ حالانکہ ملک کی عدالتوں نے ایک سے زائد مواقع پر بلڈوزر کارروائی پر سرزنش بھی کی ہے لیکن یو پی حکومت اپنی روش میں تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ گذشتہ دنوں اترپردیش کے بہرائچ شہر میں ایک سازش کے تحت تشدد برپا کیا گیا ۔ ایک نوجوان کا قتل ہوگیا ۔ متوفی نوجوان کے تعلق سے ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ تشدد بھڑکانے کیلئے بھی وہی ذمہ دار تھا ۔ اس کے باوجود اس کے قتل کیس میں کئی نوجوانوںکو ماخوذ کیا گیا ۔قانونی طریقہ کار کے مطابق مقدمات درج کئے گئے تاہم اچانک ہی تشدد میںکئی نوجوانوں کو ملوث قرارد یتے ہوئے ان کے گھروںا ور مکانات پر انہدام کی نوٹس چسپاںکرتے ہوئے محض تین دن میں جواب دینے کی ہدایت دی گئی ۔ معاملہ کسی طرح ہائیکورٹ پہونچا اور وہاں سے حکم التواء کے بعد یہ کارروائی اب سپریم کورٹ میں پہونچ چکی ہے ۔ عدالت نے اس پر مزید سماعت کل چہارشنبہ کو کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس وقت تک انہدامی کارروائی نہ کرنے کی ہدایت بھی دی ہے ۔
دوران سماعت عدالت نے ایک ریمارک کیا ہے جس میں اترپردیش حکومت کو ایک طرح سے وارننگ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت اگر عدالتی احکام کی خلاف ورزی کرنا چاہتی ہے تو وہ ایسا خطرہ مول لینے کیلئے آزاد ہے ۔ اس طرح عدالت نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر عدالتی احکام کے باوجود انہدامی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری اترپردیش حکومت پر عائد ہوگی ۔ عدالت کی یہ سرزنش ریاستی حکومت کیلئے انتباہ سے کم نہیں ہے اور ریاستی حکومت کو اپنے اقدامات اور فیصلوںپر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلڈوزر کارروائی اس ملک میں خوف و ہراسانی کی علامت بن گئی ہے ۔ جس کسی کو نشانہ بنانا ہے اس کے خلاف بلڈوزر کارروائی کی جا رہی ہے ۔ کسی بھی واقعہ کے ملزمین کی جائیدادوں کو زمین بوس کردیا جا رہا ہے جبکہ عدالتوں ہی کا کہنا ہے کہ کسی بھی جرم میں ملوث ہونا اس بات کی اجازت نہیں ہوسکتی کہ ملزم کی جائیداد کو منہدم کردیا جائے ۔ اس کے باوجود یو پی حکومت اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسے معاملات میں جائیدادوں کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کے بعد ہی ملزمین کی جائیدادوں کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کا دعوی کیوں کیا جاتا ہے ؟ ۔ کیا کسی غیر قانونی تعمیر کو روکنا سرکاری عہدیداروں کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر یہ عہدیدار ایسا نہیںکر رہے ہیں تو ان کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی ؟ ۔ ان کا تحفظ کیوں کیا جاتا ہے ؟ ۔
بارہا عدالتی احکام کے باوجود اترپردیش میں کسی نہ کسی بہانے سے اس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ذمہ دار اور جمہوری حکومت عدالتی احکام کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ یہ حکومت کا انتہائی افسوسناک رویہ ہے اور اس سے حکومت کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتی احکام کی پابندی سب کیلئے لازمی ہے اور ان کا احترام ہر ایک پر فرض ہے ۔ حکومتوںکو محض اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ایسی کسی بھی کارروائی سے گریز کرنا چاہئے جو خود غیر قانونی ہو اور اس پر عدالتوں سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑے ۔ یو پی حکومت کو بھی اپنی روش تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔