یو پی‘ حکمرانی ٹھپ

   

Ferty9 Clinic

تم نے پیمانِ محبت تو کیا تھا لیکن
اب تمھیں یاد نہیں تو مجھے شکوہ بھی نہیں

اترپردیش میں حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ مختلف گوشوں سے اس تعلق سے حکومت کو توجہ دہانی بھی کروائی جا رہی ہے تاہم ریاستی حکومت ان حالات کو سدھارنے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ اس کے برخلاف حکومت ایسا لگتا ہے کہ مخالف قوانین سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ ریاست میںجو واقعات حالیہ وقتوں میں پیش آئے ہیں انہوںنے قانون کی بالادستی پر سوال پیدا کردئے ہیں۔ کئی گوشوں کی جانب سے اس پر تنقیدیں ہوئی ہیں۔ سوشیل میڈیا پر ان حالات کو واضح طور پر پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ اب جملہ 74 سابقہ بیوروکریٹس نے ایک مکتوب چیف منسٹر کو روانہ کرتے ہوئے ریاست میں قانون کی حکمرانی ٹھپ ہوجانے کی بات کہی ہے ۔ اس مکتوب پرتقریبا 200 معروف شخصیتوں نے دستخط بھی کئے ہیں۔ مکتوب میں واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح ریاست میں ماورائے عدالت ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور قومی سلامتی قانون کا بیجا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ گئو کشی کے نام پر الگ سے مسلمانوں کو اور دلتوںک و ہراساں کیا جا رہا ہے ۔ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست میں کورونا بحران کے دوران ریاستی حکومت نے حالات کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات نہیں کئے ہیں اور حکومت کی جانب سے مزید بہتر انداز میں نمٹا جاسکتا تھا ۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں برسر اقتدار گروپ نے ایسا طرز حکمرانی اختیار کیا ہے جس سے دستور کی اقدار کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور قانون کی بالا دستی پرسوال پیدا ہو رہے ہیں۔ مکتوب تحریر کرنے والے کوئی عام افراد نہیں بلکہ سابقہ آئی اے ایس‘ آئی پی ایس اور آئی ایف ایس عہدیدار ہیں اور کئی دوسری سربرآوردہ شخصیتیں بھی اس پر دستخط کرچکی ہیں۔ ریاستی حکومت کو ان حالات کا نوٹ لینا چاہئے ۔ مکتوب میں واضح کیا گیا کہ ریاست میں ہرگذرتے دن کے ساتھ صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ لوگ قانون کی پاسداری کرنے کی بجائے قانون سے کھلواڑ کر رہے ہیں ۔
جہاں تک ریاستی حکومت کی بات ہے تو اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ حکومت کی سطح پر بھی کچھ قوانین کا بیجا استعمال کرتے ہوئے کسی طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حکومت قوانین کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ گئو کشی کا مسئلہ ہو یا پھر لو جہاد کا مسئلہ ہو ایسے نعروں کا سہارا لیتے ہوئے ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مکتوب میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کے تمام شعبہ جات جن میں ایگزیکیٹیو مجسٹریٹس اور پولیس شامل ہے وہ ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ مکتوب تحریر کرنے والوں نے اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ اگر اس صورتحال پر قابو پایا نہیں گیا تو دستوری اور جمہوری ادارہ جات کو ناقابل تلافی نقصان پہونچے گا ۔ اس کے نتیجہ میں عوام میں جمہوریت کے تئیں اعتماد تباہ ہو جائیگا ۔ اس مکتوب میں صرف زبانی باتیں نہیں کی گئی ہیں بلکہ سرکاری اعداد و شمار کو پیش کیا گیا ہے جس کے تحت یہ دعوی کیا گیا ہے کہ صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے صحافیوں کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے ۔ کیرالا کے صحافی صدیق کپن کی اس سلسلہ میںمثال پیش کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی عصمت ریزی کے واقعہ کی بھی مثال پیش کی گئی اور یہ کہا گیای کہ کس طرح سے انتظامیہ نے راتوں رات اس خاتون کی نعش کو نذر آتش کردیا گیا تھا ۔ اس پر سارے ملک میں ہنگامہ ہوا تھا اور عوام نے برہمی ظاہر کی تھی ۔
یہ بات سارا ملک جانتا ہے کہ صدیق کپن اب تک 200 سے زیادہ دن جیل میں گذار چکے ہیں اور اب تک ان کی ضمانت نہیں ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ جمہوری حقوق کیلئے آواز اٹھانے اور صدا بلند کرنے والوں کو بھی مقدمات میں پھانسا جا رہا ہے ۔ عوام کو احتجاج سے روکنے کیلئے ان پر جرمانے عائد کئے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت اور دستور میں عوام کو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ریاستی حکومت عوام کو ان کے حقوق سے بھی محروم کر رہی ہے ۔ جو مکتوب سابقہ بیوروکریٹس نے روانہ کیا ہے اس نے ریاست کی ساری صورتحال کی عکاسی کی ہے اور اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کا نوٹ لے اور انہیں بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کرے تاکہ قانون کی حکمرانی اور دستور کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ۔