یو پی ‘ صرف انہدام پر ہی توجہ کیوں ؟

   

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
قومی سطح پر ہو یا پھر ریاستی سطح پر ہو حکومتوں کا کام تعمیری سرگرمیوں کو آگے بڑھانا ہوتا ہے ۔ چاہے وہ سماج کی تعمیر ہو یا پھر ترقیاتی پراجیکٹس کی بات ہو یا سوچ کی بات ہو سب کچھ مثبت اور تعمیری ہونا چاہئے تاہم ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش میں ‘ جو ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے ‘ حکومت اور انتظامیہ نے اپنی راہ ہی الٹ کردی ہے ۔ تعمیری کاموں کو آگے بڑھانے کی بجائے انہدامی کارروائیوں پر ہی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ جہاں کہیں کوئی موقع ملتا ہے بلڈوزر پہونچ جاتے ہیں اور مکانات ہوں یا دوکانیں ہو یا پھر مساجد یا درگاہیں ہوں وہاں فوری سے پیشترا نہدامی کارروائی شروع کردی جاتی ہے ۔ خاص طور پر اقلیتوں اور مسلمانوں کی جائیداد و املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اچانک اور کسی نوٹس کے بغیر انہیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ان کی دوکانیں اور مکانات محفوظ نہیں ہیں اور نہ ہی مساجد اور درگاہیں محفوظ رہ گئی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی جانب سے کسی بھی انہدامی کارروائی پر روک لگائے جانے اور پیشگی نوٹس دینے کی شرط اور عدالتی سماعت کی گنجائش رکھنے کے باوجود کوئی موقع دئے بغیر خوشی نگر میں مدینہ مسجد کے ایک حصے کو منہدم کردیا گیا تھا ۔ اس پر متعلقہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحقیر عدالت کی درخواست داخل کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے آج ایک بار پھر یو پی حکام اور انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے کہ ان کے خلاف تحقیر عدالت کی کارروائی کیوں شروع نہیں کی جانی چاہئے ۔ اس کے علاوہ عدالت نے ایک بار پھر یہ ہدایت دی ہے کہ آئندہ ہدایت تک کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی نہیںکی جانی چاہئے ۔ ملک کی مختلف عدالتیں ہوں یاپھر سپریم کورٹ ہو ایک سے زائد بار ہدایات دے چکی ہیں کہ انہدامی کارروائیاںپیشگی نوٹس کے بغیر نہیںکی جانی چاہئیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش میں حکومت اور اعلی عہدیدار صرف انہدامی کارروائیوں ہی کو اپنا فرض اولین سمجھنے لگے ہیں اور اس سلسلہ کو آگے ہی بڑھاتے جا رہے ہیں اور اس کام میں وہ عدالت کی ہدایات کو بھی خاطر میںلانے تیار نظر نہیں آتے ۔
جس وقت سے اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت چل رہی ہے اس وقت سے ہی انہدامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ آدتیہ ناتھ کو بلڈوزر بابا تک کہا گیا ۔ یہاں تک کہ خود آدتیہ ناتھ نے انتخابی مہم کے دوران بلڈوزرس کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے ایک پیام دیا تھا کہ انہیںصرف انہدامی کارروائی ہی میںدلچسپی ہے اور وہ تعمیری کاموں پر توجہ دینے کو تیار نہں ہیں۔ یہ ایک انتہائی منفی سوچ ہے جس کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ مثبت سوچ سے اگر حکومتیں کام کرنے لگیں تو پھر سماج کی اور ریاست کی ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جو ترقی کے معاملے میں ملک کی دوسری ریاستوں سے کافی پیچھے ہے ۔ اس ریاست میں ہمہ جہتی منصوبے بناتے ہوئے ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ عوام کو راحت پہونچانے کیلئے اور انہیں ترقی کے سفر میں حصہ دار بنانے کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ریاست کی معاشی اور تعلیمی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ تاہم آدتیہ ناتھ یا بی جے پی کے قائدین اس جانب توجہ دینے ہی تیار نظر نہیں آتے ۔ صرف اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سیاست کو چمکانے اور اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔ آدتیہ ناتھ کبھی یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ عید نہیں مناتے ۔ کبھی دیوالی اور عید کا تقابل کرتے ہوئے سماج میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ہجومی تشدد برپا کرنے والوں کو قانونی اور دیگر طرح کی مدد فراہم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بارہا ہدایات کے باوجود ان کی خلاف ورزی کرنا کسی بھی حکومت کیلئے ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا سب کیلئے ضروری ہوتا ہے اور اترپردیش یا وہاں کے عہدیدار یا وزراء وغیرہ بھی اس مستثنی نہیں ہیں۔ اترپردیش حکومت اور خاص طور پر چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کو اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہدام یا مسماری کو ترک کرتے ہوئے ریاست کی تعمیر اور ریاستی عوام کو سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ منفی سیاست کو تر کرنا ہوگا اور بیمار ذہنیت سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے مثبت سوچ و فکر کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور یہی ان کی ذمہ داری ہے ۔