یو پی ‘ مایاوتی کی سرگرمیاں

   

سرحدیں وہ نہ سہی اپنی حدوں سے باہر
جو بھی ممکن تھا کیا اس کے سیوا کیا کرتے
ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں بھی سیاسی سرگرمیاںشروع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کیلئے ابھی کافی وقت ہے لیکن سیاسی صف بندیوں کے اشارے ابھی سے ملنے شروع ہوگئے ہیں ۔ جس طرح لوک سبھا انتخابات میںاترپردیش میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے کامیابیاں درج کروائی تھیں اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے ابھی سے آئندہ اسمبلی انتخابات کیلئے در پردہ اپنی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ بہوجن سماج پارٹی سربراہ مایاوتی کی سرگرمیاں بھی بی جے پی کے منصوبہ ہی کا حصہ ہیں۔ بی جے پی نے ہمیشہ سے دوسری جماعتوں پر انحصار کیا ہے اور جہاںکہیںاس نے اپنے آپ کو مستحکم اور مضبوط محسوس کیا وہاںحلیف جماعتوں کو چلتا کردیا تھا ۔ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے حالات زیادہ سازگار نہیں رہے تھے ۔ لوک سبھا کی شکست کے اسمبلی انتخابات پر اثرات کے اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیںاور بی جے پی کو بھی یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ کانگریس اور سماجوادی پارٹی کیڈر کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور ایسے میںان جماعتوں سے اسمبلی انتخابات میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی نے ابھی سے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں اور مہا کمبھ میلے کی تشہیر کرتے ہوئے عوامی تائید بٹورنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ زر خرید اور تلوے چاٹنے والا میڈیا اور اس کے اینکرس بھی مہاکمبھ میلے کو بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک قرار دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اب بہوجن سماج پارٹی سربراہ مایاوتی نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے یہ اشارے دیدئے ہیں کہ آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل اترپردیش میں نئی سیاسی صف بنیاد ہوسکتی ہیں اور بی جے پی کا دامن تھامتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی بھی خود کو سیاسی طورپر زندہ کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ گذشتہ دو بار کے انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی کا جو حشر ہوا تھا اس کے بعد اس کیلئے بی جے پی کا دامن تھامنے ہی میں عافیت محسوس ہو رہی ہے ۔
بی جے پی کیلئے صورتحال یہ ہے کہ چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے طرز کارکردگی سے خود بی جے پی کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت محسوس ہونے لگی ہے ۔ کچھ ارکان اسمبلی ہیں جو ان کے طرز کارکردگی سے ناراض ہیں اور انہوں نے ہائی کمان کو بھی اپنی ناراضگی سے واقف کروا دیا ہے ۔ وہ تاہم کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام میں بھی آدتیہ ناتھ حکومت سے بیزاری کے جذبات پیدا ہونے لگے ہیں۔ لگاتار دو معیادوں تک تاناشاہی کے انداز میں حکومت چلائی جارہی ہے اور اس کے عوام پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کو اس صورتحال کا اندازہ ہونے لگا ہے اور بی جے پی لوک سبھا انتخابات کی طرح اسمبلی انتخابات کیلئے اترپردیش سے تغافل برتنا نہیںچاہتی ۔ وہ کسی بھی قیمت پر اترپردیش میں اقتدار گنوانے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسے میں در پردہ تیاریوں کا آغاز کرتے ہوئے مایاوتی کو بھی ساتھ ملانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ پس پردہ ہو رہا ہے لیکن سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے کی جانے والی پہل پر مایاوتی کا رویہ بھی مثبت ہی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ جس طرح بی جے پی کو ایک سہارے کی ضرورت ہے اسی طرح مایاوتی کیلئے بھی بی جے پی کا دامن تھامنا سیاسی اعتبار سے ضروری ہوگیا ہے اور اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مایاوتی نے اپنے عزائم واضح کرنے شروع کردئے ہیں اور انہوں نے پارٹی میں تبدیلیوں کا بھی آغاز کردیا ہے ۔
مایاوتی نے اپنے بھانجے کو پارٹی کی ذمہد اری دی تھی ۔ پھر اسے سبکدوش کردیا گیا تھا ۔ دوبارہ ذمہ داری دی گئی تھی اور کل دوبارہ انہیں سبکدوش کردیا گیا ۔ کانگریس یا سماجوادی پارٹی نے ان فیصلوں کو عجیب و غریب قرار دیا تھا تاہم بی جے پی نے ابھی سے مایاوتی کی مدافعت کا آغاز کردیا ہے اور اس کا کہنا تھا کہ پارٹی کے فیصلوں کا مایاوتی کو مکمل اختیار حاصل ہے ۔ وہ پارٹی کی سربراہ ہیں اور جیسے چاہیں فیصلے کرسکتی ہیں۔ اس طرح بی جے پی نے یہ اشارہ دیدیا ہے کہ وہ مایاوتی کیلئے اپنے دراوزے کھول رہی ہے اور مایاوتی بھی اس پہل پر مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے بی ایس پی کو سیاسی طور پر زندہ کرنے کی کوشش شروع کرچکی ہیں۔