یوگا گرو رام دیو کی سرزنش

   

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
یوگا گرو رام دیو کو ایک بار پھر عملا عدالت کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ویسے تو اپنے کاروبار کو پھیلانے اور اسے مزید وسعت دینے کیلئے رام دیو ماضی میں بھی ایسے بے بنیاد دعوے کرتے رہے ہیں جنہیں عدالتوں نے قبول نہیں کیا تھا ۔ میڈیکل طریقہ علاج کو بھی یوگا گرو نے نشانہ بنایا تھا اور اپنے ساز و سامان اورا پنی اشیاء کی فروخت کیلئے بے بنیاد دعوے کئے تھے ۔ اس وقت پتانجلی کے اشتہارات کو بھی عدالتوں کے حکم سے بند کرنا پڑا تھا اور رام دیو کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ایسے دعوے کرنے سے گریز کریں جن سے دوسروں کی نفی ہوتی ہو۔ رام دیو کچھ دن تو خاموش رہے تاہم انہوں نے ایک بار پھر اپنے دعووں کا سلسلہ جاری کردیا اور اس بار انہوں نے نہ صرف تجارتی مخالفت ظاہر کی بلکہ ہندو۔ مسلم کرنے کی بھی کوشش کی تھی ۔ انہوں نے ہمدرد کے شربت روح افزاء کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ دعوی کیا تھا کہ روح افزاء بنانے والی کمپنی ملک میں اپنی آمدنی سے مدرسے اور مساجد تعمیر کرتی ہے ۔ انہوں نے دعوی کیا تھا کہ پتانجلی کی فروخت سے جو آمدنی ہوتی ہے اس سے گروکل وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ رام دیو یہ فراموش کرچکے تھے کہ ہمدرد ملک میں ایک یونیورسٹی چلاتی ہے اور اسے ملک کی بہترین جامعات میں شمار کیا جاتا ہے ۔ یہاں ہندو ۔ مسلم کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود محض اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے رام دیو نے اپنی منفی ذہنیت کا مظاہرہ کیااور ہمدرد کی اشیاء کو نشانہ بنایا تھا ۔ اس بار یوگا گرو نے جو دعوی کیا تھا وہ انہیں عدالت کی جانب سے پہلے دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی میں تھا ۔ اس طرح ان کے خلاف تحقیر عدالت کی کارروائی بھی شروع کی جاسکتی ہے ۔ عدالت کی جانب سے یوگا گرو کو تحقیر کی نوٹس بھی جاری کی جاسکتی ہے ۔عدالتوں سے یکے بعد دیگر ے معاملات میں سرزنش کا سامنا کرنے کے باوجود بھی رام دیو یا دوسرے کچھ عناصر بھی ہیں جو اپنے رویہ میںکسی طرح کی تبدیلی نہیں لا رہے ہیں۔ یہ لوگ صرف اپنے انداز میں من مانی دعوے کرتے ہوئے عدالتوں کے احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔
عدالتی احکام کی خلاف ورزی کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اپنے کاروبار کو چمکانے کیلئے کسی مخالف کو نشانہ بنانے کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ جو اشتہار بازی کی جاتی ہے وہ بھی حقائق پر مبنی ہونی چاہئے ۔ جھوٹے اور بے بنیاد دعووں کے ذریعہ کاروبار کوفروغ دینے کے اقدامات قابل مذمت ہی ہیں۔ یوگا گرو رام دیو نے تو حد کرتے ہوئے روح افزاء کی تجارت کو شربت جہاد کا تک نام دیدیا تھا ۔ ملک میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے جہاد کا نام دیدیا جائے ۔ پہلے لو جہاد کا نام شروع کیا گیا ۔ پھر سیول سروسیس جہاد کا نام دیا گیا ۔ پھر شربت جہاد کا نام دیا جا رہا ہے ۔ پھر کسی اور جہاد کا نام دیا جائے گا ۔ یہ سارا کچھ مسلم دشمنی اور بیمار ذہنیت کی علامت ہے اور اس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ اپنے مفادات کی تکمیل اور تجارت کو آگے بڑھانے کیلئے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنا چاہئے ۔ منفی اور بیمار ذہنیت کے ساتھ تجارت بھی ترقی نہیں کرسکتی ۔ اپنی اشیاء کی تجارت ان اشیاء کی بہتری اور عوام کیلئے فائدہ مند ہونے کے عنصر کو پیش کرتے ہوئے کی جاسکتی ہے ۔ ملک میںکروڑوں لوگ تجارت سے وابستہ ہیں اور کوئی بھی دوسروں کو منفی یا فرقہ وارانہ خطوط پر نشانہ بناتے ہوئے تجارت نہیں کرت ۔ یہ صرف بیمار ذہنیت رکھنے والے ہی عناصر کرتے ہیں اور یوگا گرو رام دیو نے بھی ایسا ہی کیا تھا جس پر انہیں پھر سے عدالتی سرزنش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
بات صرف رام دیو کی حد تک محدود نہیں ہے ۔ ملک میں ہر شہری کو اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ایک دوسرے کے مذاہب پر طنز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ تجارت کے کچھ اصول ہیں اور ان کی پابندی ہر ایک کیلئے ضروری ہے ۔ اب جبکہ دہلی ہائیکورٹ سے پھٹکار ملی ہے تو رام دیو کو بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتی احکام کی پابندی بھی ضروری ہے ۔ کسی کو بھی عدالتی احکام سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے ۔ بصورت دیگر اگر تحقیر عدالت کی کارروائی شروع ہوجائے تو ایسا کرنے والوں کیلئے مشکل ہوسکتی ہے ۔