تلنگانہ بجٹ اعداد و شمار کا الٹ پھیر ۔ تخمینہ اور خرچ میں واضح فرق

,

   

50 ہزار کروڑ کی آمدنی گھٹ گئی ، قرض پر 18,688 کروڑ روپئے سود ادائیگی ۔ سی اے جی رپورٹ ، 32 ہزار کروڑ روپئے خرچ نہیں کئے گئے
حیدرآباد /13 مئی ( سیاست نیوز ) تلنگانہ کا بجٹ اوپر شیروانی اندر پریشانی ثابت ہوا ہے ۔ بجٹ کے تخمینہ اور ریکوری میں 50 ہزار کروڑ روپئے کا فرق پایا گیا ۔ جس سے فلاحی اسکیمات کیلئے حکومت 32 ہزار کروڑ روپئے خرچ نہیں کرپائی ہے ۔ گذشتہ سال حکومت نے 1,76,126 ہزار کروڑ روپئے کا تخمینہ بجٹ پیش کیا تھا تاہم جاریہ سال مالیاتی سال کے اختتام مارچ تک 1,27,468 ہزار کروڑ روپئے ہی وصول ہوپائے ہیں ۔ کنٹرولر اینڈ اڈیٹر جنرل ( کاگ ) کی رپورٹ میں اس کا انکشاف ہوا ہے ۔ حکومت ہر سال پرکشش اعداد و شمار کے ساتھ بھاری بجٹ پیش کرتی ہے ۔ بالاآخر آمدنی حاصل نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے خسارے کو دکھانا معمول بن گیا ہے ۔ اگرچہ کے ریاست کی اپنی ٹیکس آمدنی بہتر ہے ۔ مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کردہ گرانٹس ، شراکت ، ریاست کو توقع کے مطابق غیر ٹیکس آمدنی وصول نہیں ہوئی ۔ جی ایس ٹی اسٹامپس رجسٹریشن ، سیلس ٹیکس ، اسٹیٹ اکسائز ڈیوٹی ، دیگر ٹیکس نان ٹیکس ، مرکزی حکومت کے گرانٹس ، کنٹریبوشن سے حاصل ہونے والی آمدنی جس کا تخمینہ 1,76,126.94 کروڑ روپئے لگایا گیا تھا تاہم 1,27,468.54 کروڑ روپئے ہی وصول ہوپائے ۔ ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ جن میں مرکز سے توقع کے مطابق گرانٹس جاری نہیں ہوئے ۔ اراضیات کی فروخت سے آمدنی کو بڑے پیمانے پر اضافہ کرکے بتایا گیا ۔ سال 2021-22 کے مالیاتی سال میں تلنگانہ حکومت نے مرکز سے 38,669.46 کروڑ روپئے کے گرانٹس وصول ہونے کا اندازہ لگایا تھا تاہم مارچ تک مرکزی حکومت نے صرف 8,619.26 کروڑ روپئے ہی جاری کیا جو اندازہ لگایا گیا تھا ۔ اس میں صرف 22.29 فیصد ہی جاری کیا گیا ۔ مرکز سے وصول ہونے والے گرانٹس کو ریاستی حکومت نے بہت زیادہ اضافہ کرتے ہوئے بتایا تھا سال 2020-21 کے مالیاتی سال میں 10,525 کروڑ روپئے گرانٹس وصول ہونے کا اندازہ لگایا تھا تاہم 15,471 کروڑ روپئے وصول ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ مشین بھاگیرتا ، مشین کاکتیہ اسکیمات کیلئے 24 ہزار کروڑ روپئے تلنگانہ کو دینے کی نیتی ایوگ نے مرکز سے سفارش کی تھی جس سے ان تمام کو شمار کرتے ہوئے 38,669 کروڑ روپئے وصول ہونے کا بجٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا ۔ مگر صرف 8,619.26 کروڑ روپئے ہی وصول ہوئے ۔ اس کے باوجود جاریہ مالیاتی سال مرکز سے 40 ہزار کروڑ روپئے وصول ہونے کا بجٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے ۔ اراضیات کی فروختگی سے 30,557 کروڑ روپئے کی آمدنی ہونے کا بجٹ میں اندازہ لگایا گیا ۔ مگر صرف 8,857.37 کروڑ روپئے ہی وصول ہوئے ۔ نان ٹیکس کے ذریعہ بھارتی آزدنی ہونے کی توقع ظاہر کی گئی ۔ مگر اس کی ایک تہائی آمدنی بھی حاصل نہیں ہوئی ۔ اس طرح گرانٹس نان ٹیکس آمدنی 27.63 فیصد گھٹ گئی ۔ جو تقریباً 50 ہزار کروڑ روپئے ہے۔ حکومت نے ریونیو اور کیپٹیل ایکسپینڈیچر کے تحت 1,98,430.21 کروڑ روپئے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ مگر مارچ تک 1,66,737.06 کروڑ روپئے ہی خرچ پائی ہے ۔ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً 32 ہزار روپئے کے اخراجات کم ہوگئے ہیں ۔ جو بھی خرچ کئے گئے ہیں ان میں 47,690.59 کروڑ روپئے قرض حاصل کرنے والی رقم بھی شامل ہے ۔ اخراجات میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے 30,375.10 کروڑ سرویس پنشن کیلئے 14,027.98 کروڑ قرض پر سود کے 18,688.18 کروڑ ، اسکیمات کی سبسیڈی پر 10,218.03 کرؤڑ روپئے شامل ہیں ۔ سرکاری اسکیمات ترقیاتی اقدامات دوسرے محکمہ جات کیلئیہ سال بھر میں صرف 50 ہزار کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ۔ ن