ہندوستانی سیاست اور مسلمان|| از: شعیب حسینی ندوی

,

   

مسلمان ملک ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں، اسکی تاریخ انکے بغیر ناتمام ہے، کشمیر سے لیکر کیرالہ تک انکے نقوش خشک و تر پر ثبت ہیں، تہذیب و تمدن میں انکے نمایاں اثرات جھلکتے ہیں، صدیوں پر محیط انکی حکمرانی اور رعب و دبدبہ کی طویل سلطانی نے ملک کو نیا رنگ وآہنگ اور مسلمانوں کو الگ شناخت بخشی۔آزادی کے بعد نقشہ بدل جاتا ہے، تقسیم کا واقعہ سوہان روح بن جاتا ہے، مسلمان دوسرے نمبر کے شہری بنتے چلے جاتے ہیں تانآنکہ دلت قوم ان سے فائق ہو جاتی ہے۔گفتگو کا اصل موضوع سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری ہے، چنانچہ اس اعتبار سے جائزہ لیں تو جو تصویر ابھر کر آتی ہے وہ بہت تکلیف دہ اور احساس ملامت دلانے والی ہے، ہوا یہ کہ ملکی سطح پر جو پارٹی سب سے نمایاں بلکہ تنہا حکومت کی دعویدار تھی وہ کانگریس تھی، اس نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ آزادی میں اپنا حصہ ادا کیا تھا اب تقسیم کے بعد اسکو اکثریتی سماج کا نمائندہ بن کر آنا تھا اور مسلمان جنکی اب کوئی مستقل نمائندہ پارٹی نہیں تھی اقلیتی سماج بن کر ابھرے جو دوسروں کی رسی تھامے ہو۔حکومت سازی میں مسلمانوں کی حصہ داری سمجھی گئی اور اسکا لحاظ کر کے کچھ نمائندگی دی گئی، لیکن انکے مستقل سیاسی وجود کو کبھی پنپنے نہ دیا گیا اور پالیسی میکنگ میں انکی شمولیت نہیں ہوئی، تلخ سچائی یہ ہے وہ جتنے قد آور لیڈر ہوں لیکن وہ کانگریس کا ضمیمہ بنا کر رکھے گئے، اور انکو پارٹی کے اندر اقلیت کا ایک معمولی سا چہرہ بنا کر چھوڑ دیا گیا، بعد میں آنے والوں کو تو اپنے ضمیر کا سودا کر کے جگہ بنانی پڑی۔مولانا ابو الکلام آزاد سے لیکر غلام نبی آزاد تک تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر گزرتے زمانہ کے ساتھ حاشیہ کی نچلی لکیریں جگہ بنتی رہیں، در اصل کانگریس کا برہمن واد دماغ سیکولرازم کا لباس تو اوڑھ کر آیا لیکن سفید پوشاک کے اندر کالا دل اپنا زہر گھولتا رہا، محض کرسی کی پوجا انکا دھرم تھا وہ مسجد بنا کر ہو یا مسجد گرا کر۔دوسری طرف ملی سطح پر ہماری قیادت سیاسی شعور کے اس مقام تک پہنچی ہوئی نہیں تھی جہاں برہمن واد اور منوسمرتی پر ایمان رکھنے والی ساولکر کی تنظیم وتحریک تھی، وہ کانگریس کی ریڑھ کی ہڈی بن گئے، پٹیل سے لیکر نرسمہا راؤ تک سیاسی بساط پر آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو آب حیات سے سینچتے رہے اور زمینی سطح پر اسکو زندہ کر دیا۔ لیکن ہمارے خون سے کانگریس کے درخت کو آب حیات تو پلایا گیا لیکن اس پر اگنے والے پھلوں سے محروم رکھا گیا، ساتھ ہی ساتھ ہم‌ نے اپنی مستقل حیثیت بنانے کی وہ محکم جد و جہد بھی نہیں کی جو ہمیں دوسرے کمزور اور دبے کچلے طبقوں کی طرف سے نظر آتی ہے، اور بہت تاخیر سے جو کوششیں شروع بھی ہوئیں ان میں سیاسی بصیرت کی کمی اور اندرون خانہ تدبیر و عمل سے زیادہ جوشیلی وجذباتی سیاست کا طریقہ غالب رہا جو کہ مفید بننے کے بجائے مضر بن گیا۔ آج کے حالات انہی اسباب کا طبعی نتیجہ ہیں جو تقریبا ایک صدی میں بنتے رہے، مسلمان اپنی سیاسی کسمپرسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔آج ضرورت ہے کہ ملی قیادت سیاست کو شجرۂ ممنوعہ گرداننے کے بجائے حکیم سیاست کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مستقل وجود کی لڑائی لڑے، امت کو بے ساکھیوں کے حوالہ کرنے بجائے انکے قدم مضبوط کرے، ظاہر ہے اس کے لیے امت میں اعتماد پیدا کرنا اور انکا بھروسہ جیتنا، عملا انکا چہرہ بننا اور سیاسی فرنٹ پر انکی لڑائی لڑنا، سنسیٹیو ایشوز (حساس مسائل) کو دبانا اور عمومی مشترک مسائل پر پُرزور آواز اٹھانا، قانونی لڑائی سے زیادہ سیاسی لڑائی لڑ کر انکے وجود کو بچانا ناگزیر ہے۔ نوجوان قیادت کو ابھارنا اور اسکے جذبات کو حکمت و دانائی کی قلم لگانا اور عوام کی آواز بننا وغیرہ کرنے کے کام ہیں۔