آدتیہ ناتھ کی زبان شائستگی سے عاری

   

نہ چھیڑ اے نکہت بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ اپنے غیرشائستہ لب و لہجہ اور انتہائی شرمناک تبصروں کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تہذیب اور اخلاقیات سے وہ پوری طرح سے عاری ہیں۔ اسی لئے وہ نازیبا ریمارکس کو اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اسی طرح کے متنازعہ ریمارکس کی وجہ سے بی جے پی نے انہیں چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کردیا ۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وہ چیف منسٹر ہیں۔ اترپردیش کو تہذیب اور تمدن کی ریاست کہا جاتا ہے ۔ وہاں کی زبان سارے ہندوستان میں شہرت رکھتی ہے اور اسے پسند کیا جاتا ہے لیکن آدتیہ ناتھ انتہائی غیرشائستہ اور نازیبا ریمارکس کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے ماضی میں بھی اور حال میں بھی بے شمار ایسے ریمارکس کئے ہیں جن پر ان کی سرزنش کی جانی چاہئے تھی لیکن بی جے پی قیادت ایسا لگتا ہے کہ آدتیہ ناتھ سے سوال کرنے سے گھبراتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے وہ جس لب و لہجہ میں چاہیں اور جس نازیبا زبان میں چاہیں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنائیں۔ انہوں نے ایک کے بدلے سو مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنانے کا بھی ریمارک کیا تھا جو اخلاقیات سے عاری تھا ۔ اب انہوں نے بنگال میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاج کو بھی نشانہ بنانے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ یہ چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز رہنے والے شخص کیلئے انتہائی نازیبا ریمارک ہے ۔ آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ بنگال جل رہا ہے اور چیف منسٹر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آدتیہ ناتھ دوسری ریاستوں پر تبصرہ کرنے کی بجائے اپنی ریاست کا ٹھیک طرح سے دھیان رکھیں۔ اپنی ریاست کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کریں۔ مسلم دشمن ریمارکس اور تبصروں سے ووٹرس کو خوش کرنے کی بجائے ان کے مسائل کی یکسوئی اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے کارروائی کی جائے ۔ ریاست میں خواتین اور لڑکیوں کی عصمتوں کو بچانے پر توجہ دی جائے اور لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کیلئے کام کیا جائے ۔
اترپردیش میں آئے دن خواتین اور لڑکیوں کی عصمت ریزی کے واقعات پیش آتے چلے جا رہے ہیں۔ لڑکیوں پر مظالم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ ریاست میں قتل و غارت گری میں اضافہ ہوا ہے ۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑ گئی ہے ۔ مجرمین میں قانون کا خوف باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے آدتیہ ناتھ مسلم دشمنی میں مصروف ہیں۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف سیاہ پٹیوں سے احتجاج کرنے پر لاکھوں روپئے جرمانہ عائد کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی جائیدادو املاک کو زمین بوس کرنے کیلئے بلڈوزر سے کام لیا جا رہا ہے جبکہ ایک سے زائد مرتبہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اترپردیش میں ایسی کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور ان کی سرزنش کی ہے ۔ ضمیر جھنجھوڑے جانے کا ریمارک تک کیا ہے اس کے باوجود آدتیہ ناتھ یا ان کی حکومت کے عہدیدار اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں ہیں۔ عدالتوں سے لگاتار پھٹکار کے باوجود اترپردیش میں صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے ۔ حکومت اس جانب توجہ دینے ہی کو تیار نہیں ہے ۔اپنے رویہ سے یوپی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ ایسا بھوتہ ے جو لاتوں سے بھی نہیں مان رہی ہے جو اسے عدالتی ریمارکس سے پڑ رہی ہیں۔ ریاست میں عوام کئی مسائل کا شکار ہیں ان پر توجہ دینے کی بجائے آدتیہ ناتھ مسلم دشمنی میں دوسری ریاستوں کی صورتحال پر بھی نازیبا ریمارکس اور تبصرے کرنے لگے ہیں۔
مرکزی حکومت مسلمانوں کی لاکھوں کروڑ روپئے کی جائیدادوں کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے ۔ مٹھی بھر کارپوریٹس کو سونپنا چاہتی ہے ۔ اسی مقصد سے وقف ترمیمی قانون منظور کیا گیا ہے اور اس پر عمل آوری کے نام پر مساجد اور مدرسوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس پر اگر مسلمان احتجاج کر رہے ہیں تو یہ ان کا دستوری حق ہے ۔ یہ حق ملک کے عوام سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ آدتیہ ناتھ کو مسلمانوں کے خلاف نازیبا اور بیمار ذہنیت والے ریمارکس کرنے کی بجائے اترپردیش میں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ دوسری ریاستوں میں عوام کی منتخبہ حکومتیں موجود ہیں اور وہ وہاں صورتحال سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔