آپ کرونالوجی کو سمجھ لی جئے۔

,

   

گولی چلانے والا”ہندو مسیحا“ کے کردار کا دعوی کررہا ہے۔
نئی دہلی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مظاہرہ کرتے ہوئے طلبہ پر جمعرات کے روز”رام بھکت گوپال“ نے مبینہ طور پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں ایک طالب علم زخمی ہوگیا‘ دراصل وہ خود کو ”ہندوؤں کا مسیحا“ کے طورپر پیش کررہا ہے او رپولیس ذرائع کے بموجب اس کے امکانی تعلقات بجرنگ دل کے ساتھ ہیں۔

ایک فیس بک پیج جو”رام بھکت گوپال“ کے نام سے منصوب ہے دائیں بازو تنظیم کے پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے۔افسروں کاکہنا ہے کہ گولی چلائے جانے سے قبل مذکورہ فیس بک پیج پر لائیو ویڈیوز پوسٹ کئے گئے ہیں جس میں حملہ آور سے میل کھاتاہوا ہے کہ ایک شخص جامعہ کے مظاہرین کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ایک ویڈیو میں مذکورہ شخص اس بات کی شکایت کرتے ہوئے سنائی دے رہا ہے کہ وہ اکیلا ہے اور کوئی بھی ”ہندو میڈیا“ اس کے ارگرد نہیں ہے۔ اس سے قبل کی تاریخوں کے ویڈیو ز میں اس شخص کو جامعہ اور شاہین باغ کے آس پاس کے علاقوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گولی چلانے سے قبل حملہ آور نے چلایا اور کہاکہ ”اؤ تمہیں آزادی دیتاہوں“۔ دراصل یہ شہریت قانون کے خلاف لگائے جانے والے ”آزادی“ نعرے کامذاق تھا۔

ایک فیس بک کے پوسٹ میں کہہ رہا ہے کہ ”میرے آخری رسومات بھگوا رنگ کے پرچم میں نعش کو لپیٹ کر ”جئے شری رام“ کے نعرے لگاتے ہوئے میرے آخری سفر انجام دیاجائے“۔

دوسرے پوسٹ میں کہہ رہا ہے”چندن بھائی کا یہ بدلا ہے“ اور ”میرے گھر کاخیال رکھنا“۔ تیسرے میں کہہ رہا ہے”شاہین باغ‘ کھیل ختم“۔

افسروں کاکہنا ہے کہ چندن گپتا جو دائیں بازو کا کارکن تھا اس کی موت مغربی اترپردیش کے کاس گنج میں فرقہ وارانہ تصادم میں جنوری2018میں غیر قانونی ”ترنگا یاترا“کے دوران ہوئی تھی۔

ایک افیسر نے کہاکہ تحقیقات کرنے والوں کو اس بات کی شواہد ملے ہیں جس سے حملہ آور کے ڈسمبر2018میں بلند شہر میں ہوئے تصادم میں ملوث ہونے کا شبہ ہوسکتا ہے جس میں ہندوشدت پسندوں نے ایک پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا قتل کردیاتھا۔

انہوں نے کہاکہ ”مذکورہ تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہے اور فی الحال اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتے ہیں“۔بعدازاں فیس بک نے جانکاری دی کہ انہوں نے بندوق بردار کا اکاونٹ بندکردیاہے۔

مذکورہ سوشیل میڈیا پلیٹ فارم نے اپنے بیان میں کہاکہ ”اس طرح کے گھناؤنہ تشدد کو انجام دینے والوں کے لئے فیس بک پر کوئی جگہ نہیں ہے۔

ہم نے بندوق بردار کا اکاونٹ بندکردیاہے او رایسے کسی بھی مواد کوہٹانے کاکام کررہے ہیں جس میں بندوق بردار کی یا اس کی فائرینگ کی ستائش کی گئی ہو“۔

ایک افیسر نے کہاکہ ”مذکورہ فیس بک پیج پر ”رام بھگت گوپال“ سے میل کھاتے ہوئے تصویریں دیکھائی گئی ہیں جس میں اس کے ساتھ بجرنگ دل کارکنان بشمول’دیپک مشرا جس کے تصویریں مرکزی وزیر گری راج سنگھ اور دیگر کے ساتھ ہیں“۔

افسروں نے ابتداء میں اس کو 19سال کا بتایا مگر بعد میں انہوں نے دعوی کیاہے کہ وہ ایک نابالغ ہے اور 17سالہ سی بی ایس ای کاطالب علم ہے۔

دسویں جماعت کی سندکی زیراکس کاپی بھی دیکھائی گئی جس کے نام پر سیاہ پٹی لگائی ہوئی تھی اور اس پر 2002کی پیدائش کاذکر کیاگیاہے۔ ایک پولیس افیسر نے کہاکہ مشتبہ کا تعلق مغربی اترپردیش کے گوتم بدھ نگر کے جیوار علاقے سے ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اس کے زیادہ تر فیس بک فرینڈ س کا تعلق جیوار سے ہے۔ ہم نے ایک ٹیم گریٹر نوائیڈ ا کے جیوار روانہ کی ہے تاکہ اس کے گھر والوں کے متعلق جانکاری حاصل کی جاسکے“۔

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہاکہ”میں نے دہلی پولیس کمشنر سے کہہ دیا اور ہدایت دی ہے کہ وہ حملہ آور کے خلاف سخت کاروائی کریں۔ اس قسم کے واقعات کومرکزی حکومت ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔

میں اس کو سنجیدگی سے لے رہاہوں اور خاطی کوبخشا نہیں جائے گا“۔ جمعرات کے روز الیکشن کمیشن نے ٹھاکر اور ورماپر بالترتریب تین او رچار دن کی انتخابی مہم میں حصہ لینے پر امتناع عائدکردیاہے۔