اسلام کا مفہوم اورسچے مسلمان کا معیار

   

اسلام عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی اطاعت اور فرماں برداری کے ہیں، یعنی اسلام قبول کرکے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کرنے کا نام اسلام ہے۔ اور یہی تخلیق انسانی کا مقصد ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کو جان کر اس کے احکامات کا تابع و منقاد ہو جائے اور اس کے ہرحکم و ایماء پر سر تسلیم خم کردے اور اس کے حکم کی تعمیل میں سرمو کوتاہی نہ کرے، تاکہ وہ اپنے آقا و مالک کی ناراضگی و سزا سے محفوظ رہے اور اس کی رضا و خوشنودی کو پاکر مراحم خسروانہ و الطاف کریمانہ کا حقدار ہو۔ یہی مقصود بندگی ہے اور یہی فلسفۂ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’یقیناً دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اور صرف اسلام ہے‘‘ (آل عمران۔۱۹) اور پروردگار عالم کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص اسلام کے سوا کوئی دین و مذہب اختیار کرے گا تو اس سے وہ دین و مذہب ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔ (آل عمران۔۸۵)
حضرت آدم علیہ السلام نے جس دین کی تبلیغ کی، وہ اسلام ہی تھا۔ سارے انبیاء اسلام ہی کی دعوت و تبلیغ کرتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے ’’میں رب العالمین کے لئے اسلام لایا‘‘ ۔ (سورۃ البقرہ۔۱۳۱)
اور ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ دین حق کی طرف مائل ہونے والے مسلمان تھے‘‘۔ (آل عمران۔۶۷)
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آقا محمد عربی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام ایک ہی دین کی دعوت دیئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسلام کے سوا کوئی مذہب مقبول نہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مرتبہ انسان کی شکل میں سفید کپڑے پہنے ہوئے ظاہر ہوئے اور آپﷺ سے مختلف سوالات کئے، ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا ’’(اے محمد! ﷺ) آپ مجھے خبر دیجئے کہ اسلام کیا ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور یہ کہ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو‘‘۔ (مکمل تفصیل کے ساتھ یہ روایت بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں موجود ہے)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوۃ دینا (۴) روزہ رکھنا (۵) حج کرنا‘‘۔ (یہ روایت بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی میں موجود ہے) ان ہی پانچ امور کو اسلام کے ارکان کہا جاتا ہے۔
اسلام اور ایمان میں لغت کے اعتبار سے فرق ہے۔ اسلام زبان سے اقرار کرنے، بدن سے جھکنے اور اطاعت و فرماں برداری کو کہتے ہیں اور ایمان دل سے تصدیق کو کہتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’اسلام ظاہری اور علانیہ ہے اور ایمان دل میں پوشیدہ ہے‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل، جلد۱، صفحہ۶۶) اگرچہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام میں فرق ہے، مگر دینی لحاظ سے نہ ایمان اسلام کے بغیر پایا جاتا ہے اور نہ اسلام، ایمان کے بغیر۔ اسلام اور ایمان حکم کے اعتبار سے مختلف نہیں، یہ ممکن نہیں کہ کسی کو مؤمن کہیں اور مسلم نہ کہیں، یا مسلم کہیں اور مؤمن نہ کہیں۔
اسلام ایک جامع لفظ ہے۔ قانون حیات، لائحہ عمل، دستوری زندگی پر بولا جاتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے، ولادت سے لے کر موت تک کے سارے مسائل حل کرتا ہے، ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور میں نے اپنی نعمت کو تم پر مکمل کردیا اور میں اسلام سے بحیثیت دین راضی ہو گیا‘‘۔
(سورۃ المائدہ۔۳)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’تم سب سے بہترین امت ہو جن کو ساری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے پیدا کیا گیا، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو‘‘ (سورہ آل عمران)
اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کی تخلیق کی وجہ بیان کی ہے کہ یہ اُمت تمام انسانوں کو نفع پہنچانے کے لئے پیدا کی گئی ہے، تو اس اُمت کی تخلیق کا مقصد ساری انسانیت بلاامتیاز رنگ و نسل، مذہب و ملت ہر فرد بشر کی خیر خواہی اور نفع رسانی ہے۔ مسلمان کسی کو خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، یہودی ہو یا عیسائی نقصان نہیں پہنچاتا۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ’’مؤمن وہ شخص ہے، جس سے دوسرے لوگ اپنے خون اور مال سے محفوظ رہیں‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (بخاری، ابوداؤد، نسائی)
بخاری شریف کی روایت ہے کہ ’’بیکار، لایعنی اور بے فائدہ چیزوں کا چھوڑنا اچھے مسلمان کی علامت ہے‘‘۔بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ’’کونسا اسلام بہتر ہے؟‘‘ یعنی اسلام کی کونسی خصلت بہتر ہے تو آپﷺ نے فرمایا ’’کھانا کھلانا اور سلام کرنا اسلام کی بہترین عادت ہے‘‘۔ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا ’’میں اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل، جلد۲،صفحہ۳۸۱)
آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’تم میں بہترین وہ ہیں جن کے تم میں اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل، جلد۲، صفحہ۳۸۱) ابوداؤد میں ہے کہ ’’سب سے زیادہ کامل مؤمن وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔ پس اسلام صرف عقیدہ کا نام نہیں، بلکہ اسلام عقیدہ اور عمل کا نام ہے۔ نیز اٹھارہویں پارہ کی ابتدائی آیتوں میں مؤمنین کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں:
’’سچا مسلمان وہ ہے جو اللہ پر ایمان لائے، اس کی ذات پر کامل بھروسہ کرے، اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرے اور اس کے احکام پر عمل کرے، اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کرے۔ حضور پاک ﷺ پر ایمان لائے، آپﷺ کی کامل اتباع اور پیروی کرے، خوشی اور غم ہر وقت حضور ﷺکی پیروی کرے، آپﷺ کو اپنی جان، مال اور اولاد سے زیادہ چاہے۔ صحابہ کرام کی تعظیم کرے اور ان کے طریقہ پر چلے۔ کسی کو نقصان نہ پہنچائے، بلکہ ساری انسانیت کے لئے امن و امان کا پیغام دے‘‘۔