اس ہفتہ کے آخرت میں اپنی اردو کی محبت کا منائیں جشن

,

   

نئی دہلی۔ اُردو زبان کے جشن کی سالانہ تقریب جشن ریختہ کے دوران پچھلے سال اداکار جاوید جعفری نے کہاتھا کہ ”اُرد و خطرے میں نہیں‘ اُردو قطرے قطرے میں ہے“۔

سال2015میں شوع کئے گئے سالانہ پروگرام کی مذکورہ تین روزہ تقریب اس ہفتہ کے آخر میں اپنے چھٹے ایڈیشن کے لئے دہلی واپس لوٹنے کی پوری تیاری میں ہے۔ اُردو کی ترقی کے لئے کام کرنے والے ایک ٹرسٹ ریختہ فاونڈیشن کی جانب آرٹس‘ غزلوں‘ صوفی میوزیک‘ قوالی‘ داستان گوئی‘ مشاعرہ کے پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔

اس سال کی توجہہ ”تشکیل اور آرٹس کے مظاہرے میں خواتین کے رول“ پر رہے گی اور بڑے پیمانے پر آرٹسٹوں‘ سے شاعرجاوید اختر اور داستان گوئی فوزیہ‘ اُردو شاعر منور رانا سے موسیقی کار شجاعت حسین خان اس تقریب میں شرکت کریں گے۔

اس میں کیلی گرافی کا ورک شاپس بھی ہوں گے اور اُردو کے تلفظ اور فوڈ فیسٹول اور کتابوں کی نمائش ہوگی۔

پچھلے پانچ سالوں سے مذکورہ فیسٹول کو بڑے پیمانے پر عوامی حاصل ہورہی ہے‘ اور اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جبکہ سال2015میں 18000شرکاء سے بڑھ کر ان کی تعداد پچھلے سال 1.5لاکھ موجود ہیں۔

ریختہ کے بانی سنجیو سراف جو ایک سابقہ کاروباری ہیں‘ جنھوں نے ”فیڈ ہس سول“ کے نام سے فاونڈیشن قائم کیا ہے نے کہاکہ ”ہم نے دیکھا کہ پچھلے کچھ سالوں میں فیسٹول میں بڑے پیمانے پر ترقی ملی ہے۔

نہ صرف شرکاء بلکہ شراکت داروں اور پروگراموں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے“۔تقریب کا مقصد اُردو کی روح کو زندہ کرنا ہے‘

اس کی عظیم لٹریچر اور مذکورہ ’گنگا جمنی تہذیب‘ سے وابستگی کو بڑھاوا دینا ہے۔ ریختہ اُردو کی بحالی کی کہانیاں بھی پیش کرتا ہے جو قوم کے ضمیر کا حصہ ہے اور سراف فخر سے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ”نوجوان“ اس بحالی کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ”70-80فیصد ہمارے مندوبین نوجوانوں پر مشتمل ہیں‘ جس کا عام طور پر اُردو بولنے والوں کا پس منظر نہیں ہے“۔

اس تقریب کے ذریعہ سراف کو امید ہے کہ کس طرح اُردو ”اینکرس“ کو نمایاں کریں جو ہندوستانی ثقافت کاحصہ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”مذکورہ زبان کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی ہے۔ آج ہمارے پاس تکثیری مندوبین کی اس تقریب میں شرکت ہے۔

تمام معیشت‘ سماج اور ثقافت کا پس منظر رکھنے والے لوگ ایک ساتھ آرہے ہیں کیونکہ وہ اُردو کی بے وقتی کا حصول کریں گے“۔مگر اُردو بھی ’اجنبی‘ رہی‘ ایک طویل عرصہ سے بقیہ کی حیثیت سے موجود ہے۔

اس کو بجائے ہندوستان میں پیدا ہونے والی زبان کے پہنچانے جانے کے بعد اس کو ایک مذہب سے جوڑکر رکھنے کاکام کیاہے۔

مگر مذکورہ تقریب کی منشاء ”اُردو کو ہندوستانی زبان“ کے طور پراجاگر کرنا ہے۔مگر اس سال ریختہ کو ”تنازعات“ کاشروعات سے سامنا کرنا پڑرہا ہے‘

اس کی شروعات فاونڈیشن کے پوسٹر سے ہوئی جس میں اُردو لفظ کو ہٹاکر اس کے بجائے ہندوستانی زبان کے طور پر پیش کیاہے۔