بے شمار امریکی او ربرطانوی جرنلوں نے ایک طاقت اور مستحکم افغان فوج بنانے کا دعوی کیاہے۔
کابل۔افغان میں طالبان کی تیز پیش رفت نے کئی لوگوں کو حیران کیا ہے‘بی بی سی کی خبر کے مطابق علاقائی درالحکومتیں پانسوں کی طرح ڈھیر ہورہے ہیں۔ رحجان واضح طور پر باغیوں کے ساتھ ہے وہیں افغان حکومت اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی جدوجہد کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اس ہفتہ ایک امریکی خفیہ رپورٹ فاش ہوئی ہے جس میں اندازہ لگایاگیاہے کہ کابل پر ہفتوں کے اندر حملہ ہوسکتا ہے اور مذکورہ حکومت90دنوں میں ڈھیر ہوجائے گی۔
مذکورہ امریکہ اور این اے ٹی او اتحادی بشمول برطانیہ نے پچھلے 20سالوں میں افغان کے سلامتی دستوں کی مصلح بنانے اور تربیت دینے میں اہم20سال گذارے ہیں۔بے شمار امریکی او ربرطانوی جرنلوں نے ایک طاقت اور مستحکم افغان فوج بنانے کا دعوی کیاہے۔
افغان حکومت کو نظریاتی طور پر اب بھی بڑی طاقت کے ساتھ بالادستی کو اپنے اختیارات میں رکھنا چاہئے۔
صفحات پر کم سے کم 300,000سے زائد مذکورہ افغان سکیورٹی دستے ہیں۔ اس میں افغان فوج اور افغان ائیر فورس اور پولیس شامل ہے۔مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ ملک میں ہمیشہ اپنے تقررات کے نشانے کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کاسامنا رہا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ افغان فوج اورپولیس کا ہمیشہ بہت زیادہ اموات‘ ویرانیاں او ربدعنوانیوں کی تاریخ رہی ہے‘ بعض بدعنوان کمانڈرس نے ایسے دستوں کی تنخواہوں کادعوی کیاہے جو حقیقت میں موجود نہیں تھے جو خود ساختہ”شیطان سپاہی“پر مشتمل ہیں۔
امریکی کانگریس کی جانب سے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان (ایس ائی جی اے آر) کی پیش کردہ رپورٹ میں اس موضوع پر شدید تشویش کا اظہار کیاگیاہے
طالبان کی طاقت کا اندازہ لگانا اور بھی مشکل ہے
مذکورہ امریکہ کی سی ٹی سی برائے ویسٹ پوائنٹ کا اندازہ ہے کہ جنگجوؤں کی تعداد 60,000تک ہوسکتی ہے۔
اسکے ساتھ اتحادی گروپس اور حامیوں کو ملاکر 200,000تک یہ تعداد پہنچ سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں تعدادکا تمام خلاصہ کیاگیاہے