کابل۔مغربی کابل میں ضلع شیعہ میں ایک اسکول کے قریب ہفتہ کے روز ایک بم دھماکہ پیش آیاہے جس میں کم ازکم 25لوگوں کی جان گئی ہے‘ جن کی اکثریت نوجوانوں کی تھی‘ افغان حکومت کے ترجمان نے یہ بات کہی ہے۔
مذکورہ طالبان نے اس حملے کی مذمت کی جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایاگیا ہے اور کوئی ذمہ داری سے انکار کیاہے۔ داخلی وزرات کے ترجمان طارق اریان نے کہاکہ سید الشہادا اسکول کے قریب جو دشت بارچی کے پڑوس کا شیعہ اکثریت والا علاقہ ہے میں دھماکے کے مقام پر زخمی کو ملبے سے نکالنے میں ایمبولنس کو مصروف دیکھا گیاہے۔
وزرات صحت کے ترجمان غلام ستگیر نظری نے کہاکہ برہم ہجوم نے ایمبولنس او ریہا ں تک ہیتلھ ورکرس پر بھی حملہ کیاہے۔ انہوں نے مقامی لوگوں سے ایمبولنس کو مقام واقعہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرنے کے لئے تعاون کرنے کی درخواست کی ہے۔
سوشیل میڈیا پر پڑوسی کے علاقے سے اٹھنے والے دھویں پر مشتمل فوٹوز گشت کررہی ہیں۔اسوسیٹ پریس کے صحافیوں نے ایک قریب کے اسپتال میں دیکھا کہ کمروں او رہال کے راستے میں 20نعشیں پڑی ہیں درجنوں لوگ زخمی پڑے ہیں اور متاثرین کے گھر والے ان کمروں او رہال کو گھیرے ہوئے ہیں۔
محمد علی جناح اسپتال کے باہر درجنوں لوگ قطار میں خون کا عطیہ دینے کے لئے کھڑے ہیں‘ وہیں گھر والے مرنے والوں کی دیوار پر لگی ناموں کی فہرست کا مشاہد ہ کررہے ہیں۔
اریان او رنظری دونوں نے کہاکہ کم سے کم 50لوگ مارے گئے ہیں اور یہ بھی کہاکہ اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ افطار کے وقت کے قریب میں یہ دھماکہ پیش آیاہے۔
کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رپورٹرس کو ایک پیغام میں بتایا کہ اس قسم کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب دعوۃاسلامی کاگروپ ہی کرسکتا ہے۔
اسی علاقے میں قبل ازیں مذکورہ دہشت گروپ نے شیعہ اکثریت کے خلاف اس قسم کا حملہ انجام دیاتھا‘ پچھلے سال دو بے رحمانہ حملہ تعلیمی اداروں پر کئے گئے تھے جس میں 50لوگ مارے گئے‘ اور اس میں زیادہ تر طلباء تھے۔
حکومت او رامریکی عہدیداروں کے بموجب افغانستان سے ائی ایس کو نکال باہر کرنے کے بعد بھی اس کے حملے شیعہ مسلمانوں او رخاتون ورکرس کے خلاف جاری ہیں۔
اس سے قبل ایسٹرن افغانستان میں تین خاتون صحافیوں کو قتل کرنے کے ہدف کی ذمہ داری تسلیم کی تھی۔ مذکورہ حملہ ایسے وقت میں پیش آیاہے جب ملک سے 2500سے 3500امریکی دستے کے عہدیداروں نے ملک سے روانہ ہوا ہے۔
افغانستان کے نصف سے زیادہ حصہ پر قابض طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد یہ کاروائی کی جارہی ہے۔