انڈیا اتحاد کا مستقبل ؟

   

گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل جب انڈیا اتحادکی تشکیل عمل میںلائی گئی تھی اس وقت اس اتحاد سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئیں تھیں ۔ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی سے مقابلہ کیلئے اس طرح کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس میںشامل جماعتیں اور ان کے قائدین اتحاد اور اس کے مستقبل کے تعلق سے پرجوش تھے ۔ ان میں جوش و جذبہ کا عروج تھا اور ہر کوئی یہ امید کر رہا تھا کہ بی جے پی کی کامیابیوں کے سفر کو اس اتحاد کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے ۔ تاہم لوک سبھا انتخابات سے کچھ وقت قبل ہی اس اتحاد کا نظریہ پیش کرنے والے جنتادل یونائیٹیڈ کے سربراہ و چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے اس اتحاد سے ہی دوری اختیار نہیں کی بلکہ وہ مخالف اتحاد این ڈی اے کا حصہ جا بنے ۔ تاہم دوسری جماعتیں اس اتحاد میںشامل رہیںاور اس کے بیانر تلے ہی بی جے پی اور مودی حکومت کے خلاف مہم چلائی گئی ۔ لوک سبھا انتخابات 2024 میں مقابلہ کیا گیا تھا اور آپسی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ بھی کیا گیا تھا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی اتحاد میں جب ایک سے زیادہ جماعتیں شامل ہوتی ہیں تو ان میں اختلافات ہوجاتے ہیں۔ نظریاتی اختلافات کے علاوہ اپنی اپنی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر ان کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔ تاہم اہم اور اصل مقاصد کی تکمیل کا ان سب کا منشاء ایک ہی ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اتحاد کیا جاتا ہے ۔ انڈیا اتحاد نے لوک سبھا انتخابات میں حالانکہ اچھی کارکردگی دکھائی اور اتحاد میںشامل جماعتوں کی نشستوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا لیکن یہ اتحاد بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو مرکز میں اقتدار حاصل کرنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ بی جے پی کو نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی صورت میں دو مضبوط بیساکھیاںمل گئیں اور اس نے مرکز میں تیسری معیاد کیلئے مخلوط حکومت تشکیل دینے میںکامیابی حاصل کرلی ۔ اس وقت انڈیا اتحاد میںشامل جماعتوں میں کسی طرح کی بے چینی یا اضطراب کی کیفیت دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ تاہم ہریانہ میں کانگریس اور مہاراشٹرا میں مہاوکاس اگھاڑی کی شکست سے صورتحال تبدیل ہوگئی ۔
خاص طور پر مہاراشٹرا کی شکست انڈیا اتحاد کیلئے زیادہ مسائل والی کہی جاسکتی ہے کیونکہ مہاراشٹرا میں توقعات کے بالکل ہی برعکس بی جے پی زیر قیادت مہایوتی اتحاد کو کامیابی ملی اور وہ بھی بہت بڑی کامیابی ۔ مہاراشٹرا کی دو اہم جماعتوں این سی پی ( شرد پوار ) اور شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کی سیاسی اہمیت ہی کم ہو کر رہ گئی ۔ ایسے میں ان دونوں ہی جماعتوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونی لازمی ہے ۔ اب یہ دونوں جماعتیں یہ کہنے لگی ہیں کہ انڈیا اتحاد صرف قومی سطح کیلئے ہے اور ریاستی سطح کیلئے ایسا کوئی اتحاد موجود نہیں ہے ۔ اسی طرح انڈیا اتحاد میںشامل عام آدمی پارٹی نے ہریانہ میں کانگریس کی شکست میں اہم رول ادا کیا تھا اور اب دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ یہاں بھی انڈیا اتحاد کے وجود پر سوال پیدا ہوگئے ہیں۔ دوسری جماعتوں کا جہاں تک سوال ہے تو وہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں جبکہ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی ایسی واحد جماعت ہے جس نے اب بھی انڈیا اتحاد کی اہمیت کو مسلم رکھا ہے ۔ اس پارٹی کو لوک سبھا انتخابات میں انڈیا اتحاد کے نام پر جو شاندار کامیابی ملی تھی وہ بے مثال رہی اور بی جے پی کو تنہا اقتدار حاصل کرنے سے روکنے میں سماجوادی پارٹی کی یہ بڑی کامیابی اہم رہی ہے ۔ ایسے میںصرف سماجوادی پارٹی ہے جو انڈیا اتحاد کے استحکام میںیقین رکھتی ہے جبکہ دوسری جماعتوں کو اپنی اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اس اتحاد کے مستقبل کے تعلق سے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔
انڈیا اتحاد کی حلیف جماعت ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس بھی اس اتحاد کے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہے تاہم اس پارٹی نے ابھی تک اتحاد سے دوری یا علیحدگی جیسی کوئی بات نہیںکہی ہے ۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو اسے تنہا مقابلہ کی دوڑ میں اتحاد کو نظرانداز نہیںکرنا چاہئے ۔ کانگریس پارٹی کو اب بھی اس معاملے میں سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی قیادت کسی اور جماعت کو سونپتے ہوئے دوسری تمام جماعتوں کو دوبارہ یکجا اور متحد کرنا اور خود ان کے ساتھ ہوجانا چاہئے ۔ انڈیا اتحاد کا استحکام اور اس کا وجود اہمیت کا حامل ہے اور اس کو خاموشی سے ٹوٹنے کا بکھرنے کا موقع نہیںد یا جانا چاہئے ۔