حملے میں ہلاک ہونے والوں کو باقاعدہ شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد بس سے اتار کر قتل کیاگیا۔ محمد قریشی
اسلام آباد۔پاکستان نے الزام لگایا کہ رواں سال بلوچستان کے علاقے اور ماڑہ میں فوج کے چودہ اہلکاروں کو بسوں سے اتارکرقتل کرنے میں میں ملوث دہشت گرد ایران سے ائے تھے ۔
ہفتے کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اور ماڑپ حملے میں بلوچ علیحدگی پسند ملو ث تھے جن کے ٹھکانے ان کے بقول ایران میں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان نے یہ معاملہ ایران کے ساتھ اٹھایا ہے اور ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاملے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیرخارجہ نے اعلان کیاکہ پاکستان نے حالیہ حملے کے تناظر میں ایران کے ساتھ سرحد کی سکیورٹی بہتر کرنے کا فیصلہ کیاہے جس کے لئے افغانستان کی طرح ایران کی سرحد پر بھی باڑلگائی جائے گی۔
انہوں نے بتایاکہ ایران کے ساتھ 950کیلو میٹر طویل سرحد کی نگرانی کے لئے فرنٹیر کو رکی نئی فورس قائم کی جارہی ہے جب کہ سرحد کی ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ بھی نگرانی کی جائے گی۔
بلوچستان کے ساحلی علاقے اور ماڑہ میں بدھ او رجمعرات کی درمیانی مسلح افراد نے ساحلی ہائے وی پر کراچی سے گوادر جانے والی کئی بسوں رول اس میں سوار بعض افراد کو شناخت کے بعد قتل کردیاگیاتھا۔
بعدازاں پاکستان بحریہ نے تصدیق کی تھی کہ ہلاک ہونے والوں میں اس کے اہلکار بھی شامل تھے۔
لیکن فوج نے حملے میں مارے جانے والے اپنے اہلکاروں کی درست تعداد نہیں بتائی تھی۔ ہفتہ کو اپنی پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ نے بتایاکہ ماڑہ حملے میں ہلاک ہونے والوں میں پاکستان بحریہ کے دس ‘ فضائیہ کے تین او رکوسٹ گارڈ کا ایک اہلکار شامل تھا‘ جنہیں باقاعدہ شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد بس سے اتاکر قتل کیاگیا ۔
شاہ محمودقریشی نے دعوی کیاکہ حملے میں15دہشت گرد ملوث تھے جو 18اپریل کی رات ایران سے سرحد پارکرکے پاکستان ائے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے فرنٹیر کور کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔
حملے کی ذمہ داری تین بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد ’براس‘ نے قبول کی تھی جس کاٹھکانہ شاہ محمد قریشی کے مطابق بلوچستان سے متصل ایران کے علاقوں میں قائم ہیں۔
انہوں نے دعوی کیاکہ اور ماڑہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو ایران سے مد د مل رہی تھی جس کے بارے میں شواہد ٹھکانو ں کی معلومات ایران کی حکومت کو دے دی ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہاکہ پاکستان ایران سے ان دہشت گردوں کے خلاف ویسا ہی تعان چاہتا ہے جیسا خود اسلام آباد ماضی میں تہران کے ساتھ کرتا آیاہے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ نے یہ پریس کانفرنس ایسہ وقت کی ہے جب وزیراعظم عمران خان ایک روز بعد تہران کے دوروزہ سرکاری دورے پر روانہ ہورہے ہیں۔
وزرات خارجہ کے مطابق وزیراعظم 21اور 22اپریل کو تہران کا دورہ کریں گے جو بطور وزیراعظم پڑوسی ملک کا ان کایہ پہلا دورہ ہوگا۔
لیکن عمران خان کے دورے سے عین ایک روز قبل پاکستانی وزیر خارجہ کی اس پریس کانفرنس نے دورے کے مستقبل پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
ہفتے کو اپنی پریس کانفرنس میں شاہ محمودقریشی نے کہاکہ وزیراعظم پاکستان اپنے دورے میں ایرانی قیادت کے ساتھ اور ماڑہ حملے کے علاووہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی سے متعلق تعاون پر بھی بات کریں گے۔
حہ دوسراموقع ہے جب پاکستان او رایران کے سربراہان مملکت کی ملاقات سے قبل اس اس طرح کا تنازع سامنے آیاہے۔
اس سے قبل 2016میں ایران کے صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان سے عین قبل پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری ظاہر کی تھی جس کے بارے میں پاکستان نے دعوی کیاتھا کہ وہ ایران میں مقیم تھا اور وہا ں سے پاکستان میں دہشت گردوں کے نٹ ورک چلارہاتھا ۔
اس وقت بھی پاکستان میں کئی حلقوں نے ایرانی صدر کے دورے سے عین قبل یہ معاملہ اٹھانے پر تنقید کی تھی اور اسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی دانستہ کوشش قراردیاتھا۔
ہفتے کے روز منعقدہ پریس کانفرنس میں ایک صحافی ایرانی صدرکے دورے کے موقع کلبھوشن یادو اور اب عمران خان کے دورے سے عین قبل ایران پر الزامات کی وقت کا سوال کیاتو شاہ محمود قریشی نے مسکراتے ہوئے کہاکہ اس کا جواب صرف ایک لائن میں دوں گاکہ’ جانم سمجھاکرو‘