بوقت عقد عاقدہ کا طلاق کے حق کو حاصل کرنا

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے زید سے اس شرط پر نکاح کیا تھا کہ ’’ چھ مہینے موجودگی کے عالم میں اور ایک سال سفر کی حالت میں اگر ا پنی ذات عورت کو نہ پہنچائی جائے تو پس عورت کا معاملہ اس کے اپنے ہاتھ ہوجائے گا۔ چنانچہ شادی کے چار ماہ ماہ تک زید ، ہندہ کے ساتھ رہا اس کے بعد وہ امریکہ چلا گیا، تقریباً پانچ سال کا عرصہ ہوا وہ لاپتہ ہے۔ باوجود تلاش بسیار معلوم نہیں ہوا۔ ہندہ نے بربناء شرط اپنا نکاح فسخ کرلیا ۔ ایسی صورت میں شرعاً یہ نکاح فسخ ہوا یا نہیں ؟
جواب : اگر بوقت عقد عورت ، عاقد پر شرط عائد کرے کہ ’’ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں رہے گا اور عاقد اس شرط کو قبول کرلے تو شرعاً ایسا عقد درست ہے اور عورت کو علحدگی کا اختیار ہوگا ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب النکاح ۲۷۳ فصل فیما ینعقدبہ النکاح و مالا ینعقد بہ میں ہے۔ ان ابتدأت المرأۃ فقالت زوجت نفسی منک علی أنی أطلق أو علی ان یکون الأمر بیدی أطلق نفسی کلما شئت فقال الزوج قبلت جاز النکاح و یقع الطلاق و یکون الأمر بیدھا ۔ اور در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد ۲ ص ۵۲۵ میں ہے ۔ نکحھا علی ان امرھا بیدھا صح اور ردالمحتار میں ہے: (قولہ صح ) مقید بما اذا ابتدأت ا لمرأۃ۔
پس صورت مسئول عنہا میں زید نے شرط مذکور در سوال قبول کر کے عقد کیا تھا تو اب ہندہ کا فسخ شرعاً درست ہے۔
ماں شریک بھانجی سے نکاح
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سلطانہ کا نکاح اولاً مدثر سے ہوا۔ مدثر سے ان کو دو لڑکے ایک لڑکی زینب ہے، بعد ازاں سلطانہ نے شوہر کی وفات کے بعد شیخ رسول سے نکاح کیا جن سے ایک لڑکا امتیاز اور ایک لڑکی ہے ۔ اب امتیاز اپنی ماں شریک بہن زینب کی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے ۔ شرعاً یہ جائز ہوگا یا نہیں۔
جواب : شریعت مطہرہ میں حقیقی ، علاتی ، اخیافی بہنوں کی طرح ان کی اولاد یعنی حقیقی ، علاتی ، اخیافی بھانجیوں سے رشتہ نکاح حرام ہے ، والاخت حرام وہی علی ثلاثۃ اصناف اختک لابیک وامک، واختک لابیک ، واختک لامک ۔ و کذلک بناتھن وان سفلت… وابنۃ الاخ حرام ، وھی علی ثلاثۃ اصناف ابنۃ الاخ لاب و ام و ابنۃ الاخ لاب و ابنۃ لاخ لام۔ و ابنۃ الاخت علی ھذا ۔ (تاتار خانیہ ج ۳ ص ۶۱۶۔۶۱۷)
پس صورت مسئول عنہا میں زینب کی لڑکی امتیاز کی اخیافی (ماں شریک) بھانجی ہے اس لئے یہ نکاح شرعاً حرام ہے۔
بہنوائی سے پردہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول خاں یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی کو اس کے بہنوائی سے اس کے بعض ناروا اخلاق و عادات کی بناء پر دہ کروانا چاہتا ہے اور ان کے گھر بھی لے جانا نہیں چاہتا۔ خاندان والے والد و والدہ و دیگر افراد دباؤ ڈال رہے ہیں کہ بہن کے گھر اس کو روانہ کرتے رہیں۔ ان حالات میں کیا ان کو ان کی بہن کے گھر نہ جانے دیں تو کیا یہ درست عمل ہے یا نہیں ؟
جواب : بہنوائی شریعت میں غیر محرم ہے اس سے پردہ شرعاً لازم ہے ۔ بہن کے گھر سال میں ایک مرتبہ جانے کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ وہاں اس کے بہنوائی کی وجہ کوئی خطرہ نہ ہو ۔ بہن اگر اپنی بہن کے گھر میں آکر ملاقات کرے تو اس کی شرعاً اجازت ہے۔ فقط واﷲ تعالٰی اعلم