بی جے پی کی انتخابی تیاریاں

   

Ferty9 Clinic

اہلِ دل تم سے ملے دل کو بچاکر لیکن
دِل جلے جب بھی ملے تم سے کُھلے دل سے ملے
بی جے پی کی انتخابی تیاریاں
ملک کی پانچ ریاستوں میں آئندہ سال کے اوائل میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی تیاریاں تقریبا سبھی سیاسی جماعتیں شروع کرچکی ہیں۔ اپنے اپنے طور پر ان ریاستوں سے تعلق رکھنے والی علاقائی اور دوسری قومی جماعتیں سرگرم ہوچکی ہیں۔ مختلف قائدین بھی اپنے اپنے حلقوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں شروع کرچکے ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے پانچ ریاستوں کے انتخابات اس کیلئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ان میں سوائے پنجاب کے دوسری چار ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے ۔ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش ہے ۔ بی جے پی کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں حالات اس کے حق میں سازگار نہیں ہیں۔ بی جے پی چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے چہرے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہتی تھی تاہم کہا جا رہا ہے کہ آدتیہ ناتھ ہی اب بی جے پی کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ اترپردیش کے بی جے پی ارکان اسمبلی کی اکثریت آدتیہ ناتھ کے طرز کارکردگی سے مطمئن اور خوش نہیں ہے ۔ وہ خود پارٹی قائدین کیلئے دستیاب نہیں ہیں۔ وہ پارٹی قائدین و ارکان اسمبلی و پارلیمنٹ کے علاوہ وزراء کیلئے بھی وقت نہیں دے رہے ہیں۔ اس بات سے پارٹی کی مرکزی قیادت کو واقف کروادیا گیا ہے ۔ گذشتہ مہینے بی جے پی کے مرکزی قائدین نے اترپردیش کی صورتحال کا ایک سے زائد مرتبہ جائزہ لیا ۔ کچھ قائدین نے یو پی کا دورہ بھی کیا اور کچھ یو پی کے ذمہ داران کو دہلی بھی طلب کیا گیا تھا ۔ کچھ ایسا فارمولا تیار کرنے کی کوشش کی گئی جس سے حالات کو پارٹی کے حق میں بہتر بنایا جاسکے اور پارٹی کے قائدین کی شکایات کا ازالہ بھی کیا جاسکے ۔تاہم ریاست میں عوام میں آدتیہ ناتھ حکومت کے خلاف ناراضگی کی جو صورتحال ہے وہ ابھی کم نہیں ہوئی ہے ۔ عوام میں اب بھی حکومت کے تعلق سے برہمی پائی جاتی ہے ۔ کورونا کی دوسری لہر نے عوام کو جن تکالیف کا سامنا کیا ہے ان کو عوام فراموش نہیں کر پا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بحران میں حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی ۔
بی جے پی قائدین اور حکومت کے ذمہ داران تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد مختلف اقدامات کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں کے حصے کے طور پر اب کہا جا رہا ہے کہ مرکزی کابینہ میں بھی تبدیلیاں کی جائیں گی ۔ کچھ وزراء کو تبدیل کیا جائیگا ۔ انہیں دوسری ذمہ داریاں دیتے ہوئے نئے چہروں کو کابینہ میں شامل کیا جائیگا ۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش میں جیوتر آدتیہ سندھیا کو کابینہ میں شامل کیا جاسکتا ہے جن کی کانگریس سے بغاوت کے نتیجہ میںہی بی جے پی کو ریاست میں عوام کی منتخبہ کانگریس حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے اقتدار پرقبضہ کرنے کا موقع ملا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک اہم شمولیت میں بہار کے رکن پارلیمنٹ پشوپتی ناتھ پارس کو بھی کابینہ میں شامل کیا جاسکتا ہے جو آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بھائی ہیں اور حال ہی میں انہوں نے ایل جے پی کو توڑتے ہوئے نیا گروپ بنالیا تھا اور اپنے بھتیجے چراغ پاسوان سے بغاوت کردی تھی ۔ اگر انہیں کابینہ میں شامل کیا جاتا ہے تو بی جے پی کے تعلقات ایل جے پی کے ساتھ عملا ختم ہوجائیں گے ۔ پارٹی قائدین ملک کی مختلف ریاستوں کے قائدین کے ناموں پر غور کرچکے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے مختلف وزارتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی کارکردگی کی رپورٹ بھی حاصل کرلی ہے اور جن نئے شہروں کو شامل کیا جاسکتا ہے ان کے تعلق سے رائے عامہ بھی معلوم کرلی گئی ہے ۔ سارا کچھ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے ۔
بی جے پی اپنی کارکردگی میں بہتری لانے یا پھر عوام کو تسلی یا دلاسہ دینے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں اور ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ ساری کوششیں کر رہی ہے ۔ اترپردیش میں خاص طور پر پارٹی امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ اہم تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔ نئے چہروں کو شامل کرتے ہوئے کارکنوں میں اعتماد پیدا کرنے پر توجہ کی جا رہی ہے جبکہ عوام کی ناراضگی کو دور کرنے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ بی جے پی اپنی انتخابی تیاریوں میں ایک بار پھر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے اور دکھاوے کی تبدیلیوں سے انہیں گمراہ کرنا چاہتی ہے ۔