تروپتی کا لڈو اور اے پی کی سیاست

   

من میں لڈو پھوٹنے لگا
اپنوں کا ساتھ چھوٹنے لگا
پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش کی سیاست ان دنوں مذہبی جذبات کا شکار ہوگئی ہے ۔ سارے جنوبی ہند میں شہرت رکھنے والے تروپتی مندر میں پرساد کے لڈو میں جانوروں کی چربی استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد سیاسی سرگرمیاںبڑھ گئی ہیں۔ ماحول گرم ہوگیا ہے اور ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ بات عدالتوں تک پہونچ چکی ہے اور الزامات کا سامنا کرنے والے سابق چیف منسٹر و سربراہ وائی ایس آر کانگریس جگن موہن ریڈی نے اس معاملے میں ایک مکتوب وزیر اعظم نریندرمودی کو بھی روانہ کرتے ہوئے سارے معاملے کی سی بی آئی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس مسئلہ پر مختلف گوشوں سے مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں بیان بازیاں چل رہی ہیں۔ تروپتی کے مندر کو جنوبی ہند میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ ملک بھر سے بھی یہاں بھکت آتے ہیں اور درشن کرتے ہیں۔ آندھرا پردیش میں اس مندر کیلئے باضابطہ سرکاری انتظامات کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کئی امور کا تعین حکومت کی جانب سے ہی کیا جاتا ہے ۔ لوگ بہت زیادہ عقیدت کے ساتھ یہاں آتے ہیں اور ان کے مذہبی جذبات یہاں سے وابستہ ہیں۔ اس مندر کی اہمیت اور یہاںسے بھکتوں کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے اچانک ہی لڈو میں جانوروں کی چربی کے استعمال کا انکشاف ہونا سیاسی اتھل پتھل کی وجہ بن گیا ہے ۔ چیف منسٹر چندر ابابو نائیڈو نے یہ انکشاف کیا اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ سابقہ وائی ایس آر کانگریس حکومت کے دور میں جو لڈو تیار ہوتے تھے ان میں جانوروں کی چربی کے استعمال کیا جا رہا تھا ۔ اس طرح سے ہندو عوام کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے ۔ جہاں تک وائی ایس آر کانگریس کی بات ہے تو سابق چیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے واضح کردیا ہے کہ ان کی حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے اور ایسی سرگرمیوں کا انہیں کوئی علم نہیں ہے ۔ اسی طرح آندھرا پردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر پون کلیان بھی اس مسئلہ پر سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے بھی اس پر منفی تبصرے کئے ہیں۔
ہندو بھکتوں کے مذہبی جذبات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتہائی اہمیت کا حامل اور حساس مسئلہ ہے ۔ اس مسئلہ پر خاطیوں کا پتہ چلانے اور انہیںسزائیں دلانے سے زیادہ سیاست کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ چند دن قبل اترپردیش میں کانوڑ یاترا میں محض مسلم دوکانداروں سے اشیائے خورد و نوش کے حصول کو روکنے کیلئے نام لگانے کی ہدایت دی گئی تھی ۔ حالانکہ اس حکمنامہ کو عدالت نے روک دیا تھا تاہم حکومت سے یہ کوشش ضرور کی گئی تھی ۔ اب جبکہ مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت ہی ہے تو اس نے آندھرا پردیش میں اس سنسنی خیز انکشاف کے تعلق سے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ چند دن قبل ایک مسلم دوکاندار کی پٹائی محض ایک میلے میں اس لئے کردی گئی تھی کہ اس نے ہندو لباس پہن پر اپنی اشیاء فروخت کرنے کی کوشش کی تھی ۔ مذہبی جنون میں اس حد تک جانے والے افراد اب مندر کے پرساد میں بیف کی چربی اور خنزیر کی چربی استعمال کئے جانے پر مذہبی اہمیت اور حساسیت کے مطابق کام کرنے کی بجائے یا تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا پھر اس پر محض سیاست کی جا رہی ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی مرتبہ آندھرا پردیش جیسی ریاست میں مذہبی جذبات کے استحصال کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مسئلہ چونکہ مذہبی نوعیت کا ہے اور انتہائی حساس سمجھا جا رہا ہے ایسے میںاس پر سنجیدگی سے تحقیقات کروانے کی بجائے سیاست کی جا رہی ہے جس کا سلسلہ روکا جانا چاہئے ۔ سیاست کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔
چندرا بابو نائیڈو نے اپنے دعوی کی تائید میں ایک لیب کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے ۔ اس سا رے معاملہ کی اہمیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس کی مکمل اور غیرجانبدارانہ جانچ کروائی جانی چاہئے ۔ مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے سیاست کرنے کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ تحقیقات میں اگر کوئی خاطی پایا جائے تو اسے بخشا نہیں جانا چاہئے اور اس کے پس پردہ تمام ذمہ داران کو منظر عام پرلاتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے ۔ سیاست کرنے کا کسی کو بھی موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور نہ ہی محض الزام تراشیوں کے ذریعہ ماحول کو پراگندہ کرنے کی کسی کو اجازت دی جانی چاہئے ۔