جموں کشمیر میں ہندوؤں کو آبادی کرنے کے لئے بی جے پی اپنے منصوبہ کا احیاء عمل میں لارہی ہے

,

   

کشمیری پنڈتوں نے اس اقدام کو غیر حقیقی قراردیتے ہوئے مستر د کردیاہے۔

سری نگر۔ ایک سینئر لیڈر نے کہاکہ ہندوستان کی برسراقتدار سیاسی جماعت اپنے منصوبہ کا احیاء عمل میں لائی گی تاکہ وادی کشمیر میں مسلم اکثریتی والے علاقے میں ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کا کام کیاجاسکے‘ یہ ایک ایسی تجویز ہے جو ہمیشہ علاقے میں کشیدگی کا موجب رہا ہے۔

رام مادھو‘ جو بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)قومی جنرل سکریٹری او رکشمیر کے ذمہ دار بھی ہیں نے کہاکہ ہندوقومی پارٹی 1989میں جھڑپوں کے بعد کشمیر وادی چھوڑ کر جانے والے ایک اندازے کے مطابق 200,000‘300,000کو واپس لانے والوں کے لئے سنجیدہ ہے۔

مادھو نے ایک انٹرویو کے دوران کشمیر ہندوجو پنڈتوں کے نام سے بھی جانے جاتے ہوئے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ”وادی میں ان کی واپسی کے بنیادی حق کا احترام ہونا چاہئے۔

اسی وقت میں ہم انہیں موثر سکیورٹی بھی فراہم کریں گے“۔مادھو نے یہ بھی کہاکہ سابق کی جموں او رکشمیر ریاست میں بی جے پی کی حمایت والی حکومت میں نے اس کو تسلیم کرلیاتھا کہ آیا علیحدہ او رمشترکہ آبادی کاری ٹاؤن شپ تعمیر کی جائے گی‘

مگر اس میں کوئی وسعت نہیں ہوئی“۔

علیحدہ مکانات کی تعمیر بہت ہے اور ہم انہیں مقامی سیاسی جماعتوں‘ مسلم قیادتوں اور فرار ہونے والے ہندو نمائندگی کے گروپس کی جانب سے کوئی وسعت نہیں ملی۔

صدیوں تک کشمیری مسلمانوں کے پڑوس میں رہنے کے بعد 1989میں وادی میں پیدا شدہ بحران کے سبب جس میں مسلم شدت پسندوں کے حملے او رقتل کے واقعات میں اضافہ ہوگیاتھا اپنی جان بچانے کے لئے پنڈتوں نے راہ فرار اختیار کی تھی۔

وادی میں ہندوؤں کی واپسی کے لئے علیحدہ مکانات کی تعمیر کے لئے کوئی بھی قدم بڑے پیمانے کی مخالفت کاسبب بن سکتا ہے اور کشمیر پنڈت لیڈروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکر کھڑا کرنے کی وجہہ سے بھی بن سکتا ہے۔

کشمیری پنڈت سماج کے ایک لیڈر سنجے تیکو جو کشمیر میں مسلسل رہ رہے ہیں‘ نے کہاکہ آبادکاریوں کی تعمیرسکیورٹی کے لئے خطرپ ہوسکتا ہے اور غیر حقیقی حل ثابت ہوگا جس کی وجہہ سے کشیدگی میں بھی اضافہ ہوجائے گا